Skip to content

خُدا زندگی دینے والا خدا ہے

Posted in خُدا کی تلاش

کسی نے کیا خوب کہا ہے، جگ والا میلہ یارو تھوڑی دیر دا، ہس دیاں رات لنگے پتہ نہیں سویر دا۔۔۔ یہ دُنیا سانسوں پہ چلتی زندوں کی ایک بستی ہے، جہاں سانس اُکھڑا وہیں بستی سے رشتہ ٹوٹ گیا۔ یہ زندگی ایک سفر اور یہ دُنیا ایک مسافر خانہ ہے۔ مسافر آتے جاتے، اُترتے چڑھتے اور پھر دُور کسی اِنجانی منزل کی طرف گُم ہو جاتے ہیں۔ مگر زندگی کی گاڑی یوں ہی چلتی چلی جاتی ہے۔ ہر مسافر کی اپنی ایک کہانی ہے، اپنی ہی آپ بیتی ہے۔ کچھ اچھی یادوں کے اِتنے گہرے نقوش چھوڑ جاتے ہیں کہ اُن کی خوشگوار یادیں دِل و دماغ کو معطر کرتی رہتی ہیں۔ اور کچھ کانٹوں بھری ایسی چُبھن چھوڑ جاتے ہیں کہ نہ زخم بھرتے ہیں، نہ ٹیسیں اور سسکیاں کم ہوتی ہیں۔ مگر زندگی کی گاڑی خوشگوار اور تلخ یادوں کے سہارے یوں ہی چلتی چلی جاتی ہے۔

مگر یہ سب ہے کیا؟ شاہِ یروشلیم دائود نبی کے بیٹے سلیمان بادشاہ کا حکمت و دانش، مال و دولت اور شان و شوکت میں کوئی ثانی نہیں تھا۔ مگر سب کچھ ہونے کے باوجود واعظ کی اِلہامی کتاب میں کہتا ہے، ’’باطل ہی باطل واعظ کہتا ہے باطل ہی باطل۔ سب کچھ باطل ہے۔ اِنسان کو اُس کی ساری محنت سے جو وہ دُنیا میں کرتا ہے کیا حاصل ہے؟ ایک پشت جاتی ہے اور دوسری پشت آتی ہے پر زمین ہمیشہ قائم رہتی ہے۔‘‘ (واعظ ۱:۲-۴) یہاں تک کہ وہ کہتا ہے، ’’اور سب کچھ جو میری آنکھیں چاہتی تھیں، مَیں نے اُن سے باز نہ رکھا۔ مَیں نے اپنے دِل کو کسی طرح کی خوشی سے نہ روکا کیونکہ میرا دِل میری ساری محنت سے شادمان ہُوا اور میری ساری محنت سے میرا بخرہ یہی تھا۔‘‘ (واعظ ۲:۱۰) اور پھر کہتا ہے، ’’اُس نے (یعنی خدا نے) ہر ایک چیز کو اُس کے وقت میں خوب بنایا اور اُس نے ابدیت کو بھی اُن کے دِل میں جاگزین کِیا ہے اِس لئے کہ اِنسان اُس کام کو جو خدا شروع سے آخر تک کرتا ہے دریافت نہیں کر سکتا۔‘‘ (واعظ ۳:۱۱)

سوال یہ ہے کہ کیا اِنسان کو پیدا کِئے بغیر نظامِ کائنات چل نہیں سکتا تھا؟ تو پھر خدا نے اِنسان کو اپنا دَم پُھونک کر اپنی ہی شبیہ پر کیوں بنایا؟ جب کوئی کاریگر یا تخلیق کار کوئی چیز بنانے کا سوچتا ہے تو اُس کے ذہن میں پورا خاکہ یا منصوبہ ہوتا ہے کہ بننے والی چیز اُس کے مقصد کو پورا کرے گی۔ تو چلیئے آئیے بائبل مُقدس سے دیکھتے ہیں کہ زندگی وجود میں کیسے آئی، ’’پھر خدا نے کہا کہ ہم اِنسان کو اپنی صُورت پر اپنی شبیہ کی مانند بنائیں اور وہ سمندر کی مچھلیوں اور آسمان کے پرندوں اور چوپایوں اور تمام زمین اور سب جانداروں پر جو زمین پر رینگتے ہیں اِختیار رکھیں۔‘‘ (پیدایش ۱:۲۶) اِس کا مطلب یہ ہُوا کہ ہم خدا کی صُورت، اُس کی شبیہ پر بنائے گئے ہیں، اور اُس کی رُوح اور اُس کا دَم ہمیں زندگی بخشتا ہے، جیسا کہ ایوب کی اِلہامی کتاب میں لکھا ہے، ’’خدا کی رُوح نے مجھے بنایا ہے اور قادرِ مُطلق کا دَم مجھے زندگی بخشتا ہے۔ ‘‘ (ایوب ۳۳:۴) ظاہر ہے کہ اگر ہم خدا کی صورت و شبیہ پر، اُس کی رُوح و دَم سے پیدا کِئے گئے ہیں تو ہمیں ہر لحاظ سے خدا کے معیار کے مطابق ہونا چاہیے۔ اور خدا کا منصوبہ بھی یہی تھا کہ اِنسان اُس کی طرح پاک و راستباز ہو اور رُوح و سچائی سے عبادت و پرستش کرے، مگر افسوس کہ اِنسان نے خدا کی حکم عدُولی کی اور اِلٰہی معیار پر قائم نہ رہ سکا اور بدی و گناہ کے سبب خدا سے الگ ہو گیا، اور خدا اِس قدر غمزدہ ہُوا کہ اِنسان کو یعنی اپنی ہی تخلیق کو پیدا کرنے سے پچھتایا۔ بائبل مُقدس میں لکھا ہے، ’’اور خداوند نے دیکھا کہ زمین پر اِنسان کی بدی بہت بڑھ گئی اور اُس کے دِل کے تصور اور خیال سدا بُرے ہی ہوتے ہیں۔ تب خداوند زمین پر اِنسان کو پیدا کرنے سے ملُول ہُوا اور دِل میں غم کِیا۔‘‘ (پیدایش ۶:۵-۶)

کیونکہ خدا اپنی مخلوق سے محبت کرتا ہے لہذا اُس نے اپنے نبی پیغمبر بھیجے کہ اِنسان کو بدکاری سے باز رکھے۔ اَب ایک طرف خدا کی محبت تھی اور دوسری طرف اُس کا عدل، دونوں کو چھوڑنا اُس کے لئے ممکن نہ تھا۔ وہ کیا کرے کہ اُس کی محبت بھی قائم رہے اور عدل کا تقاضا بھی پورا ہو۔ چاہیے تو یہ تھا کہ اِنسان جہنم کی آگ میں جھونکا جائے مگر خدا کی محبت نے جوش مارا اور وہ مجسم ہو کر اپنے بیٹے یسوع مسیح کی صورت میں خود دُنیا میں آیا تاکہ ہم ہلاکت سے نکل کر زندگی میں آئیں۔ اِسی لئے مسیح نے فرمایا، ’’…مَیں اِس لئے آیا کہ وہ زندگی پائیں اور کثرت سے پائیں۔‘‘ (یوحنا ۱۰:۱۰) ایک اَور موقع پر مسیح یسوع نے اپنے شاگردوں کو یقین دِلاتے ہوئے کہا، ’’…زندگی کی روٹی مَیں ہوں۔ جو میرے پاس آئے وہ ہرگز بھُوکا نہ ہو گا اور جو مجھ پر اِیمان لائے وہ کبھی پیاسا نہ ہو گا۔‘‘ (یوحنا ۶:۳۵) ایک اَور مقام پر اُنہوں نے ایسا ہی دعویٰ کِیا، ’’…قیامت اور زندگی تو مَیں ہوں۔ جو مجھ پر اِیمان لاتا ہے گو وہ مَر جائے تو بھی زندہ رہے گا۔ اور جو کوئی زندہ ہے اور مجھ پر اِیمان لاتا ہے وہ ابد تک کبھی نہ مرے گا۔‘‘ (یوحنا ۱۱:۲۵-۲۶) غور طلب بات یہ ہے کہ یسوع نے کسی اَور ہستی کی طرف اِشارہ نہیں کِیا بلکہ دعوے سے کہا کہ کثرت کی زندگی میرے پاس ہے، زندگی کی روٹی مَیں ہوں۔ قیامت اور زندگی مَیں ہوں۔ مُردہ بدن میں زندگی کا دَم پھونکنے کا جو کام باغِ عدن سے شروع ہُوا وہ مسیح یسوع میں آج بھی جاری ہے۔ خدا بنی نوع اِنسان میں وہی پاکیزگی و راستبازی دیکھنا چاہتا ہے جس کی بُنیاد اُس نے آدم میں اپنا دَم پُھونک کر رکھی تھی۔ جس طرح آدم حکم عدُولی و نافرمانی کے سبب سے رُوحانی طور پر مُردہ ہو گیا اُسی طرح آج ہم بھی اپنے گناہوں کے سبب سے مُردہ ہیں مگر خدا ہمیں مسیح یسوع کے وسیلہ موت سے نکال کر زندگی میں داخل کرنا چاہتا ہے۔ اِسی لئے مسیح یسوع نے فرمایا، ’’مَیں تم سے سچ کہتا ہوں کہ جو میرا کلام سُنتا اور میرے بھیجنے والے کا یقین کرتا ہے ہمیشہ کی زندگی اُس کی ہے اور اُس پر سزا کا حکم نہیں ہوتا بلکہ وہ موت سے نکل کر زندگی میں داخل ہو گیاہے۔‘‘ (یوحنا ۵:۲۴) معزز سامعین! خدا چاہتا ہے کہ ہم شیطان کے جال میں پھنس کر ہلاک نہ ہوں بلکہ زندگی پائیں۔ ہمیں شیطان ڈھونڈتا پِھرتا ہے کہ پھاڑ کھائے، اِسی لئے خدا کا پیارا بندہ پطرس رسول ہمیں خبردار کرتے ہوئے کہتا ہے، ’’…تمہارا مخالف ابلیس گرجنے والے شیرِ ببر کی طرح ڈھونڈتا پِھرتا ہے کہ کِس کو پھاڑ کھائے۔‘‘ (۱-پطرس ۵:۸) آپ نے دیکھا کہ ایک طرف خدا ہمیں زندگی دینے کے لئے ڈھونڈتا پِھرتا ہے اور دوسری طرف شیطان ہمیں پھاڑ کھانے کو ڈھونڈتا پِھرتا ہے۔ تو سوال یہ ہے کہ آپ زندگی چُنیں گے یا موت؟ یقیناً آپ زندگی کو گلے لگائیں گے، اور زندگی کا سَر چشمہ مسیح یسوع ہے۔ چلیئے آئیے آپ کو بائبل مُقدس سے ایک ایسا واقعہ سُناتے ہیں جو ایک سامری عورت اور مسیح کے درمیان محض ایک مکالمہ یا گفتگو ہے، مگر اِس میں چُھپے آسمانی حقائق واضح کرتے ہیں کہ مسیح یسوع ہی ہمیشہ کی زندگی کا سَرچشمہ ہے۔ یاد رہے کہ سامریوں کو یہودی اچھا نہیں سمجھتے تھے بلکہ اُن کو حقارت کی نگاہ سے دیکھتے تھے اور مسیح بھی یہودی تھا۔ آئیے دیکھتے ہیں کہ جب سامری اور یہودی کا سامریہ کے شہر سُوغار میں ایک کنوئیں پر آمنا سامنا ہُوا تو زندگی کا چشمہ پُھوٹ نکلا جس میں سے پی کر پیاسا پھر پیاسا نہیں رہتا۔ یوحنا کی اِلہامی اِنجیل کے ۴ باب میں اِس کا یوں ذِکر ہے، ’’…چنانچہ یسوع سفر سے تھکا ماندہ ہو کر اُس کنوئیں پر یُونہی بیٹھ گیا۔ یہ چھٹے گھنٹے کے قریب تھا۔ سامریہ کی ایک عورت پانی بھرنے آئی۔ یسوع نے اُس سے کہا، مجھے پانی پِلا۔ کیونکہ اُس کے شاگرد شہر میں کھانا مول لینے کو گئے تھے۔ اُس سامری عورت نے اُس سے کہا کہ تُو یہودی ہو کر مجھ سامری عورت سے پانی کیوں مانگتا ہے؟ (کیونکہ یہودی سامریوں سے کسی طرح کا برتائو نہیں رکھتے)۔ یسوع نے جواب میں اُس سے کہا، اگر تُو خدا کی بخشِش کو جانتی اور یہ بھی جانتی کہ وہ کون ہے جو تجھ سے کہتا ہے مجھے پانی پِلا تو تُو اُس سے مانگتی اور وہ تجھے زندگی کا پانی دیتا۔ عورت نے اُس سے کہا، اَے خداوند، تیرے پاس پانی بھرنے کو تو کچھ ہے نہیں اور کُواں گہرا ہے۔ تو پھر وہ زندگی کا پانی تیرے پاس کہاں سے آیا؟ کیا تُو ہمارے باپ یعقوب سے بڑا ہے جس نے ہم کو یہ کُواں دیا اور خود اُس نے اور اُس کے بیٹوں نے اور اُس کے مویشی نے اُس میں سے پِیا؟ یسوع نے جواب میں اُس سے کہا، جو کوئی اِس پانی میں سے پیتا ہے وہ پھر پیاسا ہو گا، مگر جو کوئی اُس پانی میں سے پیئے گا جو مَیں اُسے دوں گا وہ ابد تک پیاسا نہ ہو گا بلکہ جو پانی مَیں اُسے دوں گا وہ اُس میں ایک چشمہ بن جائے گا جو ہمیشہ کی زندگی کے لئے جاری رہے گا۔ عورت نے اُس سے کہا، اَے خداوند، وہ پانی مجھ کو دے تاکہ مَیں نہ پیاسی ہوں، نہ پانی بھرنے کو یہاں آئوں۔‘‘ (یوحنا ۴:۶-۱۵) اگر ہم یوحنا کی اِلہامی اِنجیل کے ۴ باب کی اگلی کچھ آیات کا مطالعہ کریں تو واضح ہو گا کہ سامری عورت نے یسوع کو پہچان لیا اور کہا، ’’…مَیں جانتی ہوں کہ مسیح جو خرستُس کہلاتا ہے آنے والا ہے۔ جب وہ آئے گا تو ہمیں سب باتیں بتا دے گا۔ یسوع نے اُس سے کہا، مَیں جو تجھ سے بول رہا ہوں وہی ہوں۔‘‘ (یوحنا ۴:۲۵۔۲۶) اور پھر وہ اپنا پانی کا گھڑا وہیں چھو ڑ کر شہر کو بھاگی اور لوگوں میں مسیح کی گواہی و خوشخبری دی کہ آئو دیکھو مجھے مسیح مِل گیا ہے۔ بہنو اور بھائیو! جس طرح سامری عورت جو اپنے آپ کو حقیر و ناچیز سمجھتی تھی کہ ایک یہودی اُسے پانی پِلائے خدا کی بخشِش کو پہچان کر زندگی کا چشمہ بن گئی اُسی طرح آج ہم بھی اپنی گناہ آلودہ خشک و بنجر زندگی سے بیزار و مایوس ہو کر پیاسے پِھر رہے ہیں۔ اور نہیں جانتے کہ زندگی کا پانی مسیح یسوع ہمارے پاس ہی ہے جو اُس میں سے پیئے گا ابد تک پیاسا نہ رہے گا بلکہ وہ اُس میں ایک چشمہ بن جائے گا جو ہمیشہ کی زندگی کے لئے جاری رہے گا۔

یہی ہماری زندگی کا اولین مقصد ہے کہ ہم نہ صرف خود مسیح یسوع کو پہچان کر ہمیشہ کی زندگی پائیں بلکہ دوسروں کو بھی خوشخبری سُنائیں کہ وہ بھی آئیں اور آبِ حیات مُفت پِئیں۔ کیا ہماری زندگیوں میں خدا کا یہ عظیم معجزہ نہیں کہ کل تک ہم خود پیاسے تھے مگر آج دوسروں کے لئے پانی کا چشمہ بن گئے ہیں؟

جی ہاں، بِلا شک و شبہ ہمارا خدا معجزات کا خدا ہے، اور خدا کی یہی وہ خصُوصیت کا جس کا ہم اپنے اگلے پروگرام میں ذِکر کریں گے، ضرور سُنئیے گا۔