Skip to content

خُدا شِفا بخشنے والا خدا ہے

Posted in خُدا کی تلاش

کسی نے کیا خوب کہا ہے، تندرستی ہزار نعمت ہے۔ اور اِس میں کوئی شک بھی نہیں۔ صحت کی قدر و قیمت کوئی بیمار سے پوچھے جو سانس لینے اور چلنے پھرنے سے معذور ہے۔ اُس کی زندگی دوائیوں، ڈاکٹروں اور ہسپتالوں کے گرد ہی گھومتی ہے بلکہ کچھ تو شِفا پانے کے لئے تمام حدیں پار کر جاتے ہیں، درباروں، زیارتوں اور پیروں فقیروں کے چکر لگاتے ہیں اور کچھ بے چارے جعلی حکیموں کے ہتھے چڑھ جاتے ہیں جو اُن کا رہا سہا خون بھی چُوس لیتے ہیں۔ مگر ایسے بھی ہیں جو کسی اچھے ڈاکٹر سے علاج کرواتے ہیں اور ساتھ ساتھ خدا سے دُعا بھی کرتے ہیں کہ وہ اُنہیں شِفا دے۔ لیکن سوال یہ ہے کہ کیا خدا کے پاس اِتنی قدرت و اِختیار ہے کہ ہماری مُہلک بیماری کو مکمل شِفا میں بدل دے؟ آئیے بائبل مُقدس میں دیکھتے ہیں کہ یرمیاہ نبی اِس بارے میں کہتا ہے، ’’اَے خداوند! تُو مجھے شِفا بخشے تو مَیں شِفا پائوں گا۔ تُو ہی بچائے تو بچوں گا کیونکہ تُو میرا فخر ہے۔‘‘ (یرمیاہ ۱۷:۱۴) دائود نبی خدا کی یوں حمد و تمجید کرتا ہے، ’’اَے میری جان! خداوند کو مُبارک کہہ اور اُس کی کسی نعمت کو فراموش نہ کر۔ وہ تیری ساری بدکاری کو بخشتا ہے۔ وہ تجھے تمام بیماریوں سے شِفا دیتا ہے۔‘‘ (زبور ۱۰۳:۲-۳) اور جب خداوند خدا نے موسیٰ کی راہنمائی میں بنی اِسرائیل کو اپنا آئین و شریعت دی تو اُن سے کہا، ’’کہ اگر تُو دِل لگا کر خداوند اپنے خدا کی بات سُنے اور وہی کام کرے جو اُس کی نظر میں بھلا ہے اور اُس کے حُکموں کو مانے اور اُس کے آئین پر عمل کرے تو مَیں اُن بیماریوں میں سے جو مَیں نے مِصریوں پر بھیجیں، تجھ پر کوئی نہ بھیجوں گا کیونکہ مَیں خداوند تیرا شافی ہوں۔‘‘ (خروج ۱۵:۲۶) اِس میں کوئی شک و شبہ نہیں کہ خدا کے بندے جب فریاد کرتے ہیں تو وہ اُن کی سُنتا ہے۔، ’’تب وہ اپنی مُصیبت میں خداوند سے فریاد کرتے ہیں، اور وہ اُن کو اُن کے دُکھوں سے رہائی بخشتا ہے۔ وہ اپنا کلام نازل فرما کر اُن کو شِفا دیتا ہے، اور اُن کو اُن کی ہلاکت سے رہائی بخشتا ہے۔‘‘ (زبور ۱۰۷:۱۹-۲۰) اور خداوند خدا پاک اِلہامی کلام میں اپنے بندوں کی صحت یابی اور شِفا کی یوں گارنٹی دیتا ہے۔’’اَے میرے بیٹے! میری باتوں پر توجہ کر۔ میرے کلام پر کان لگا۔ اُس کو اپنی آنکھ سے اُوجھل نہ ہونے دے۔ اُس کو اپنے دِل میں رکھ کیونکہ جو اِس کو پا لیتے ہیں یہ اُن کی حیات اور اُن کے سارے جسم کی صحت ہے۔‘‘ (امثال ۴:۲۰-۲۲)

خداوند خدا شافی ہے، وہ ہمیں حیات اور صحت بخشتا ہے کیونکہ اُس کے پاس اِلٰہی قدرت و طاقت اور اِختیار ہے کہ وہ جِسے جب چاہے شِفا دے۔ آج بھی لاکھوں کروڑوں اُس سے شِفا کی بھیک مانگتے ہیں اور وہ اپنے وقت پر سب کی سُنتا ہے۔ لیکن یہ بھی ذہن میں رہے کہ خدا ہمارے لئے ہمیشہ شِفا ہی کا راستہ نہیں چُنتا۔ بعض اوقات اُس کے اِلٰہی منصوبہ میں ہماری شِفا ضروری نہیں ہوتی بلکہ وہ بیماری میں ہمیں وہ سب سِکھانا چاہتا ہے جو ہم صحتمندی میں کبھی سیکھنا نہیں چاہتے۔ یہ بھی یاد رہے کہ خدا کی عظیم قدرت ہمارے دُکھوں، مُصیبتوں، بیماریوں اور آزمایشوں میں ہی اپنا بھرپور کام کرتی ہے۔ ہمیں اپنی بیماری کی فکر ہوتی ہے اور خدا کو ہمارے دِل و دماغ اور رُوح کی فکر ہوتی ہے۔ وہ ہمیں جسمانی بیماری کے ساتھ ساتھ گناہ کی بیماری سے بھی نجات دینا چاہتا ہے۔ اِسی لئے وہ اپنے بیٹے مسیح یسوع کے رُوپ میں خود دُنیا میں آیا اور ہمارے دُکھوں، بیماریوں اور گناہوں کو لے کر صلیب پر چڑھ گیا تاکہ اُس کے مار کھانے سے ہم شِفا پائیں۔ یسعیاہ نبی کی مسیح یسوع کے بارے میں پیشین گوئی ملاحظہ فرمایئے، ’’…ہماری خطائوں کے سبب سے گھایل کِیا گیا اور ہماری بدکرداری کے باعث کچلا گیا۔ ہماری ہی سلامتی کے لئے اُس پر سیاست ہوئی تاکہ اُس کے مار کھانے سے ہم شِفا پائیں۔‘‘ (یسعیاہ ۵۳:۵) خدا کا پیارا بندہ پطرس رسول خدا کے اِلہام سے مسیح کے بارے میں کہتا ہے، ’’وہ (یعنی مسیح) آپ ہمارے گناہوں کو اپنے بدن پر لئے ہوئے صلیب پر چڑھ گیا تاکہ ہم گناہوں کے اعتبار سے مَر کر راستبازی کے اعتبار سے جِئیں اور اُسی کے مار کھانے سے تم نے شِفا پائی۔‘‘ (۱-پطرس ۲:۲۴)

آپ نے دیکھا کہ یسعیاہ نبی نے صدیوں پہلے پیشین گوئی کر دی تھی کہ مسیح یسوع کے مار کھانے سے گناہگار اِنسان شِفا پائے گا۔ اور مسیح کا شاگرد پطرس رسول جو اپنے خداوند کے ساتھ ساتھ رہا اور معجزاتی طاقت کا چشم دِید گواہ ہے، یسعیاہ نبی کی پیشین گوئی کو پورا ہوتے ہوئے دیکھتا ہے۔

مسیح یسوع کی شِفا دینے کی قدرت و اِختیار کو غیر مسیحی بھی مانتے ہیں اِسی لئے اُسے مسیحا کہتے ہیں یعنی جس سے شِفا صادِر ہوتی ہے یا وہ جو مُردہ بدن میں زندگی کی نئی رُوح پُھونک دے۔ یہ تو آپ جانتے ہی ہیں کہ زندگی کی رُوح پُھونکنے والا صرف خدا ہے تو پھر غیر مسیحی کیوں مسیح کو زندگی دینے والا مسیحا کہتے ہیں۔ یقیناً اُنہوں نے یا تو کہیں پڑھا ہے یا سُن رکھا ہے۔ مگر چلئیے آئیے دیکھتے ہیں بائبل مُقدس اِس بارے میں کیا دعویٰ کرتی ہے۔ مرتھا اور مریم کا بھائی لعزر مَر گیا، اور اُسے قبر میں رکھے چار دِن ہو گئے۔ مرتھا اور مریم اپنے بھائی کی موت پر بہت اُداس اور غم زدہ تھیں، ’’پس مرتھا یسوع کے آنے کی خبر سُن کر اُس سے مِلنے کو گئی لیکن مریم گھر میں بیٹھی رہی۔ مرتھا نے یسوع سے کہا، اَے خداوند! اگر تُو یہاں ہوتا تو میرا بھائی نہ مَرتا۔‘‘ (یوحنا ۱۱:۲۰-۲۱) مرتھا بھی پطرس رسول کی طرح مسیح یسوع کے معجزات کی چشم دِید گواہ تھی اِسی لئے اُس نے دعوے سے کہا کہ اگر تُو یہاں ہوتا تو میرا بھائی نہ مرتا۔ مگر ’’یسوع نے اُس سے کہا تیرا بھائی جی اُٹھے گا۔ مرتھا نے اُس سے کہا، مَیں جانتی ہوں کہ قیامت میں آخری دِن جی اُٹھے گا۔ یسوع نے اُس سے کہا، قیامت اور زندگی تو مَیں ہوں۔ جو مجھ پر اِیمان لاتا ہے گو وہ مَر جائے تَو بھی زندہ رہے گا، اور جو کوئی زندہ ہے اور مجھ پر ایِمان لاتا ہے وہ ابد تک کبھی نہ مَرے گا۔ کیا تُو اِس پر اِیمان رکھتی ہے؟ اُس نے کہا، ہاں اَے خداوند مَیں اِیمان لا چکی ہوں کہ خدا کا بیٹا مسیح جو دُنیا میں آنے والا تھا تُو ہی ہے۔‘‘ (یوحنا ۱۱:۲۳-۲۷)

کیا کوئی نبی پیغمبر ہے جس نے یہ اِلٰہی دعویٰ کِیا ہو، ’’قیامت اور زندگی تو مَیں ہوں، جو مجھ پر اِیمان لاتا ہے گو وہ مَر جائے تو بھی زندہ رہے گا، اور جو کوئی زندہ ہے اور مجھ پر اِیمان لاتا ہے وہ ابد تک کبھی نہ مَرے گا۔‘‘ بیمار بدن کو شِفا دینے کی بات تو چھوڑئیے یہاں تو وہ مسیحا ہے جو چار دِن کے بدبُودار مُردے میں بھی زندگی کا دَم پُھونک کر قبر سے نکال لایا۔ یُوحنا کی اِلہامی اِنجیل میں لکھا ہے کہ یسوع مسیح لعزر کی قبر پر آیا اور لوگوں کی ایک بڑی بھیڑ یہ جلالی نظارہ دیکھنے کے لئے جمع تھی کہ اِس نے اندھوں، لنگڑوں، کوڑھیوں اور معذورُوں کو شِفا دی تو کیا وہ چار دِن کے مُردہ لعزر کو زندہ کر پائے گا۔ ’’…اُس نے بلند آواز سے پُکارا کہ اَے لعزر نکل آ۔ اور جو مَر گیا تھا وہ کفن سے ہاتھ پائوں بندھے ہوئے نکل آیا اور اُس کا چہرہ رُومال سے لپٹا ہُوا تھا۔ یسوع نے اُن سے کہا، اُسے کھول کر جانے دو۔‘‘ (یوحنا ۱۱:۴۳-۴۴)

معزز سامعین! ذرا ٹھنڈے دِل سے سوچئیے کہ خدا نے مسیح یسوع کو یہ قدرت و طاقت اور اِختیار کیوں دیا کہ وہ مُردہ بدن میں زندگی کی رُوح پھونک دے۔ خدا نے مسیح کو ہی اپنے آسمانی جلال میں اِتنا سَر بلند کیوں کِیا کہ وہ جنم کے اندھوں، لنگڑوں اور کوڑھیوں کو شِفا دے۔ بلکہ اُس کی تو پوشاک کا کنارہ چُھو لینے سے ہی برسوں کے مریض شِفا پاتے تھے۔ اِس لئے کہ مسیح یسوع محض ایک نبی یا پیغمبر نہیں تھا بلکہ خدا خود مسیح میں مجسم ہو کر دُنیا میں آیا تاکہ اپنا جلال ظاہر کرے۔ یہ آسمانی قدرت و جلال ازل سے اُس کے پاس تھا۔ ہاں، یہ الگ بات کہ اُس نے ہم گناہگاروں کی خاطر اپنا اِلٰہی جلال چھوڑا اور ایک خادِم کی صُورت اِختیار کی۔ پاک کلام میں لکھا ہے، ’’اُس (یعنی مسیح) نے اگرچہ خدا کی صُورت پر تھا، خدا کے برابر ہونے کو قبضہ میں رکھنے کی چیز نہ سمجھا، بلکہ اپنے آپ کو خالی کر دیا اور خادِم کی صُورت اِختیار کی اور اِنسانوں کے مُشابہ ہو گیا۔‘‘ (فلپیوں ۲:۶-۷)

مسیح یسوع نے نہ صرف اندھوں، لنگڑوں اور کوڑھیوں کو شِفا دے کر آسمانی جلال ظاہر کِیا بلکہ جِن بھوت اور بَد رُوحیں بھی اُس کا سامنا کرنے سے تھر تھر کانپتی تھیں۔ اِس کا مطلب یہ ہُوا کہ مسیح کا شیطانی طاقتوں یعنی ناپاک رُوحوں پر بھی مکمل اِختیار تھا۔ چلئیے آپ کو بائبل مُقدس سے ایک واقعہ سُناتے ہیں۔ ’’پھر وہ گلیل کے شہر کفر نحُوم کو گیا اور سبت کے دِن اُنہیں تعلیم دے رہا تھا، اور لوگ اُس کی تعلیم سے حیران تھے کیونکہ اُس کا کلام اِختیار کے ساتھ تھا۔ اور عبادتخانہ میں ایک آدمی تھا جس میں ناپاک دیو کی رُوح تھی۔ وہ بڑی آواز سے چِلا اُٹھا کہ اَے یسوع ناصری ہمیں تجھ سے کیا کام؟ کیا تُو ہمیں ہلاک کرنے آیا ہے؟ مَیں تجھے جانتا ہوں کہ تُو کون ہے۔ خدا کا قدُوس ہے۔ یسوع نے اُسے جِھڑک کر کہا، چُپ رہ اور اُس میں سے نکل جا۔ اِس پر بدرُوح اُسے بیچ میں پٹک کر بغیر ضرر پہنچائے اُس میں سے نکل گئی۔ اور سب حیران ہو کر آپس میں کہنے لگے کہ یہ کیسا کلام ہے؟ کیونکہ وہ اِختیار اور قدرت سے ناپاک رُوحوں کو حکم دیتا ہے اور وہ نکل جاتی ہیں۔ اور گرد و نواح میں ہر جگہ اُس کی دُھوم مچ گئی۔‘‘ (لوقا ۴:۳۱-۳۷)

اِس معجزے میں غور طلب بات یہ ہے کہ بدرُوح زدہ آدمی کوئی باہر سے نہیں آیا بلکہ عبادت گاہ کے اندر کلام سُن رہا تھا۔ لہذا ہم کہہ سکتے ہیں کہ عبادتخانوں میں بھی ایسے لوگ بیٹھے ہوتے ہیں جو پورے طور پر شیطان کے قبضہ میں ہوتے ہیں۔ دوسری اہم بات یہ کہ ناپاک رُوحیں جانتی تھیں کہ یہی ہے خدا کا قدُوس، یسوع مسیح۔ جس کے پاس زمین و آسمان کا کُل اِختیار اور طاقت و قدرت ہے۔

اَب سوال یہ ہے کہ اگر جِن بُھوت، دیو اور ناپاک رُوحیں مسیح یسوع کی قدرت و اِختیار کو پہچانتی تھیں تو ہمارے ساتھ کیا مسئلہ ہے؟ ہم کیوں اُس کو پہچاننے سے اِنکار کر رہے ہیں؟ ایک دِن ہمیں اُسے پُکارنا تو ہے، تو کیوں نہ آج ہی پورے اِیمان سے اُسے آواز دیں۔۔۔اَے یسوع ناصری، مَیں جانتا ہوں کہ تُو کون ہے۔ تُو خدا کا قدُوس ہے۔ مجھے بچا لے، مجھے شِفا دے، مجھے زندگی دے۔

جی ہاں، ہمارا خدا زندگی دینے ولا خدا ہے۔ اور خدا کی یہی وہ خصوُصیت ہے جس کا ہم اگلے پروگرام میں ذِکر کریں گے کہ خدا زندگی دینے والا خدا ہے، ضرور سُنئیے گا۔