Skip to content

خدا باپ، بیٹا اور رُوح ہے (۲)

Posted in خُدا کی تلاش

تثلیث مسیحی اِیمان و عقیدہ کی بُنیاد و مرکز ہے۔ یا یوں کہہ لیں کہ تثلیث کے بغیر مسیحی اِیمان مکمل ہی نہیں ہوتا تو بجا ہو گا۔ مگر کچھ لوگوں کے لئے یہ ایک مُعمہ ہے۔ اِس میں کوئی شک نہیں کہ آسمانی کلام کے عجائب و حقائق کو وسیع اُلنظری سے سمجھنے اور جانچنے کی ضرورت ہوتی ہے کیونکہ ہماری آخرت و عاقبت کا سوال ہوتا ہے۔ آئیے اپنے دِل و دماغ کو منفی اور تنقیدی سوچ سے دُور رکھ کر خدا سے اِلتجا کریں کہ وہ ہمارے ذہن کو کھولے تاکہ اُس کے عجائب دیکھ سکیں۔ ’’میری آنکھیں کھول دے تاکہ مَیں تیری شریعت کے عجائب دیکھوں۔‘‘ (زبور ۱۱۹:۱۸) ایک اَور مقام پر خداوند خدا ہماری رہنمائی کرتے ہوئے فرماتا ہے، ’’اور تم مجھے ڈھونڈو گے اور پائو گے۔ جب پورے دِل سے میرے طالب ہو گے۔‘‘ (یرمیاہ ۲۹:۱۳)

ہم نے اپنے پچھلے پروگرام میں تخلیقِ کائنات اور مسیح یسوع کی پیدایش سے پہلے جبرائیل فرشتہ کی پیشین گوئی سے ثابت کِیا کہ خدا باپ، بیٹا اور رُوح ہے، اور تینوں مِل کر کام کرتے ہیں۔ تخلیقِ کائنات اور مسیح کی پیدایش دونوں بائبل مُقدس کے مرکزی اور بُنیادی واقعات ہیں، مگر آج ہم مسیح کی زمین پر خدمت و تبلیغ سے پہلے پیش آنے والے ایک اَور انوکھے واقعہ کا ذِکر کرتے ہیں یعنی اُس کا دریائے یردن میں بپتسمہ۔ یہ بھی ایک اہم ترین واقعہ ہے، تو آئیے دیکھتے ہیں کہ کیا وہاں بھی باپ، بیٹا اور رُوح موجود ہیں؟ بائبل مُقدس میں متی کی اِلہامی اِنجیل کے ۳ باب کی ۱۳ سے ۱۷ آیت میں لکھا ہے، ’’اُس وقت یسوع گلیل سے یردن کے کنارے یوحنا کے پاس اُس سے بپتسمہ لینے آیا۔ مگر یوحنا یہ کہہ کر اُسے منع کرنے لگا کہ مَیں آپ تجھ سے بپتسمہ لینے کا مُحتاج ہوں اور تُو میرے پاس آیا ہے؟ یسوع نے جواب میں اُس سے کہا، اَب تُو ہونے ہی دے کیونکہ ہمیں اِسی طرح ساری راستبازی پوری کرنا مناسب ہے۔ اِس پر اُس نے ہونے دیا۔ اور یسوع بپتسمہ لے کر فی الفُور پانی کے پاس سے اُوپر گیا اور دیکھو اُس کے لئے آسمان کھل گیا اور اُس نے خدا کے رُوح کو کبوتر کی مانند اُترتے اور اپنے اُوپر آتے دیکھا۔ اور دیکھو آسمان سے یہ آواز آئی کہ یہ میرا پیارا بیٹا ہے جس سے مَیں خوش ہوں۔‘‘ (متی ۳:۱۳-۱۷) دریائے یردن پر پیش آنے والا یہ واقعہ بہت ہی اہم ہے۔ پہلا یہ کہ جیسا مسیح یسوع نے یوحنا سے کہا، ’’کیونکہ ہمیں اِسی طرح ساری راستبازی پوری کرنا مُناسب ہے۔‘‘ دوسرا یہ کہ آسمان کی طرف سے خدا نے تصدیق کر دی کہ یسوع ہے کون، ’’یہ میرا پیارا بیٹا ہے جس سے مَیں خوش ہوں۔‘‘ اور یوحنا کا اپنی خدمت یسوع کے سُپرد کرنا۔ غور طلب بات یہ ہے کہ یہاں بھی تینوں باپ، بیٹا اور رُوح موجود ہیں اور تینوں مِل کر اپنا اپنا کام کر رہے ہیں۔ یسوع بپتسمہ لے رہا ہے، رُوح کبوتر کی مانند اُس پر اُتر رہا ہے اور باپ کی آسمان سے آواز آ رہی ہے۔ درحقیقت باپ یعنی خدا کا آسمان سے یسوع کو اپنا بیٹا کہنا واضح ثبوت ہے کہ باپ اور یسوع دو مختلف آسمانی ہستیاں ہیں۔ اور تینوں باپ، بیٹا اور رُوح، یسوع کے بپتسمہ کے وقت ایک ساتھ موجود ہیں۔

اَب ہم بائبل مُقدس کے ایک اَور اہم واقعہ کی طرف آتے ہیں یعنی مسیح یسوع کا مُردوں میں سے جی اُٹھنا۔ یہودی مذہبی رہنما بُنیادی طور پر ریاکار و منافق تھے اِس لئے سچائی کا سامنا نہ کر سکے اور رُومی حکمرانوں کے ساتھ مِل کر معصوم و پاک مسیح کو صلیب پر لٹکا دیا، مگر نہیں جانتے تھے کہ ایک بے گناہ کے خون میں لت پت یہی صلیب بنی نوع اِنسان کی نجات و فتح کا نشان بن جائے گی۔

اعمال کی اِلہامی کتاب کے ۳ باب کی ۱۴ آیت میں پطرس رسول یہودیوں کے بڑے مجمع کے سامنے اِس ناقابلِ فراموش واقعہ کی گواہی دیتے ہوئے کہتا ہے۔ ’’تم نے اُس قدُوس اور راستباز کا اِنکار کِیا اور درخواست کی کہ ایک خونی تمہاری خاطر چھوڑ دیا جائے مگر زندگی کے مالک کو قتل کِیا جِسے خدا نے مُردوں میں سے جِلایا۔ اِس کے ہم گواہ ہیں۔‘‘ (اعمال ۳:۱۴-۱۵) بائبل مُقدس کا یہ بیان بھی مسیح یسوع کی الُوہیت کی تصدیق کرتا ہے کہ وہ محض بڑھئی نہیں تھا جِسے خدا نے مَسح کِیا بلکہ وہ بذاتِ خود زندگی کا مالک اور خدا ہے۔ لیکن اگر آپ ۳ باب ہی کی ۱۵ آیت کے پہلے کی دو آیات یعنی ۱۳ آیت کا مطالعہ کریں تو پطرس یسوع کو خدا کا خادِم کہتا ہے۔ ’’ابراہام اور اِضحاق اور یعقوب کے خدا یعنی ہمارے باپ دادا کے خدا نے اپنے خادم یسوع کو جلال دیا جِسے تم نے پکڑوا دیا…‘‘ (اعمال ۳:۱۳) آپ نے دیکھا کہ پطرس رسول کے کہنے کے مطابق یسوع صاف طور پر خدا سے الگ ہستی ہے، ’’خدا نے اپنے خادِم یسوع کو جلال دیا۔‘‘ بِلا شک و شبہ پطرس لوگوں کے سامنے یہ دعویٰ کر رہا ہے کہ خدا باپ نے یسوع کو مُردوں میں سے زندہ کِیا۔ اور مسیح یسوع نے بھی اپنے بارے میں یہ پیشین گوئی پہلے ہی سے کر دی تھی کہ وہ مَر کر تیسرے دِن مُردوں میں سے جی اُٹھے گا۔ اُسے کسی نے مجبور نہیں کِیا بلکہ وہ خود اپنی مرضی سے یہ عظیم قربانی دے گا۔ مسیح نے فرمایا، ’’باپ مجھ سے اِس لئے محبت رکھتا ہے کہ مَیں اپنی جان دیتا ہوں تاکہ اُسے پھر لے لوں۔ کوئی اُسے مجھ سے چھینتا نہیں بلکہ مَیں اُسے آپ ہی دیتا ہوں۔ مجھے اُس کے دینے کا بھی اِختیار ہے اور اُسے پھر لینے کا بھی اِختیار ہے۔ یہ حکم میرے باپ سے مجھے مِلا۔‘‘ (یوحنا ۱۰:۱۷-۱۸)

ایسا ہی دعویٰ مسیح یسوع نے یہودیوں کی عبادت گاہ میں کھڑے ہو کر بھی کِیا، ’’…اِس مَقدِس کو ڈھا دو تو مَیں اُسے تین دِن میں کھڑا کر دُوں گا۔ یہودیوں نے کہا، چھیالیس برس میں یہ مَقدِس بنا ہے اور کیا تُو اُسے تین دِن میں کھڑا کر دے گا؟ مگر اُس نے اپنے بدن کے مَقدِس کی بابت کہا تھا۔‘‘ (یوحنا ۲:۱۹-۲۱) یہودی یہ سمجھے کہ مسیح یروشلیم میں مَقدِس کی بربادی کے بعد تین دِن میں دوبارہ بنانے کی بات کر رہا ہے حالانکہ اُس کا مُردوں میں سے جی اُٹھنے کی طرف اِشارہ تھا۔ کیا یہ حیرت انگیز بات نہیں کہ مسیح خود اپنے آپ کو مُردوں میں سے زندہ کرے؟ پولس رسول رُومیوں کے نام اپنے اِلہامی خط میں کہتا ہے، ’’لیکن پاکیزگی کی رُوح کے اعتبار سے مُردوں میں سے جی اُٹھنے کے سبب سے قدرت کے ساتھ خدا کا بیٹا ٹھہرا۔‘‘ (رُومیوں ۱:۴) یہ آسمانی ظہور ہے کہ مسیحیت کے دو اہم ترین واقعات، کلام کا مجسم ہونا یعنی مسیح کی پیدایش اور مُردوں میں سے جی اُٹھنے کے وقت باپ، بیٹا اور رُوح تینوں حاضر موجود تھے اور تینوں پوری ہم آہنگی سے ایک ساتھ کام کر رہے تھے۔

صلیب دیئے جانے سے ایک رات پہلے مسیح یسوع اپنے شاگردوں کو تسلی و اِطمینان دے رہے تھے۔ یوحنا کی اِلہامی اِنجیل کے ۱۴ باب کی ۱۶ سے ۱۷ آیت میں یوں لکھا ہے، ’’ـاور مَیں باپ (یعنی خدا) سے درخواست کروں گا تو وہ تمہیں دوسرا مددگار بخشیگا کہ ابد تک تمہارے ساتھ رہے، یعنی سچائی کا رُوح جِسے دُنیا حاصِل نہیں کر سکتی کیونکہ نہ اُسے دیکھتی اور نہ جانتی ہے۔ تم اُسے جانتے ہو کیونکہ وہ تمہارے ساتھ رہتا ہے اور تمہارے اندر ہو گا۔‘‘ (یوحنا ۱۴:۱۶-۱۷) آپ نے دیکھا کہ باپ، بیٹا اور رُوح یہاں بھی ایک ساتھ موجود ہیں اور تینوں پوری ہم آہنگی سے کام کر رہے ہیں۔ بیٹا، باپ سے کہہ رہا ہے کہ رُوح کو بھیجے، اور باپ بھیج رہا ہے اور وہ آ چکی ہے۔ ایک بات اَور نوٹ فرمائیے کہ رُوح کوئی ایسی لا تعلق سی طاقت نہیں بلکہ وہ یسوع کی صُورت میں دوسرا مددگار ہے۔ اگرچہ وہ یسوع کی طرح اِنسانی شکل میں ظاہر نہیں ہُوا مگر وہ بھی اُسی کی طرح ایک پاک آسمانی ہستی ہے۔ـ مسیح یسوع اپنے شاگردوں کو یہ بھی کہتے ہیں کہ دُنیا رُوح کو نہیں جانتی مگر تم اُسے جانتے ہو۔ معزز سامعین! اگر رُوح ایک لا تعلق سی چیز ہوتی تو مسیح یسوع کے یہ الفاظ بے معنی ہوتے۔ مگر سُنئیے کہ یوحنا کی اِلہامی انجیل کے ۱۴ باب ہی کی ۲۶ آیت میں مسیح یسوع مددگار یعنی پاک رُوح کے بارے میں کیا کہتے ہیں۔’’لیکن مددگار یعنی رُوح اُلقدس جِسے باپ (یعنی خدا) میرے نام سے بھیجے گا وہی تمہیں سب باتیں سکھائے گا اور جو کچھ مَیں نے تم سے کہا ہے وہ سب تمہیں یاد دِلائے گا۔‘‘ (یوحنا ۱۴:۲۶) غور فرمائیے کہ باپ ابھی تک رُوح اُلقدس بھیج رہا ہے مگر اِس بار وہ بیٹے یعنی یسوع مسیح کے نام سے بھیج رہا ہے۔ ایک بار پھر سُنیئے کیونکہ یہ نہایت اہم بات ہے اور غلط فہمیوں کا شکار لوگوں کے پاس تنقید و اِنکار کا کوئی جواز باقی نہیں رہتا، مسیح یسوع فرماتے ہیں، ’’جِسے باپ میرے نام سے بھیجے گا۔‘‘ کیا اَب بھی کوئی تثلیث پر سوال و اعتراض اُٹھائے گا؟ کیا اَب بھی کوئی مسیح یسوع کی الُوہیت، قدُوسیت، اول و آخر اور خالقِ کائنات ہونے پر شک کرے گا؟ اگر یسوع مسیح خدا نہیں تو اُس کے یہ الفاظ کفر ہیں۔ اپنی تعلیم و پیغام کو جاری رکھتے ہوئے یوحنا کی اِلہامی انجیل کے اگلے یعنی ۱۵ باب کی ۲۶ آیت میں وہ فرماتے ہیں، ’’لیکن جب وہ مددگار آئے گا جس کو مَیں تمہارے پاس باپ کی طرف سے بھیجوں گا یعنی سچائی کا رُوح جو باپ سے صادر ہوتا ہے تو وہ میری گواہی دے گا۔‘‘ (یوحنا ۱۵:۲۶) اَب یہاں ایک اَور حیرت انگیز بات ہے، یہاں یسوع پاک رُوح دے رہا ہے، اگرچہ وہ کہتا ہے کہ وہ اُسے باپ کی طرف سے بھیجے گا۔ عجیب بات یہ ہے کہ یسوع اور باپ دونوں ایک دوسرے میں شامل ہو کر رُوح کو بھیج رہے ہیں۔ غور فرمایا آپ نے کہ ۱۴ باب میں وہ کہہ رہا ہے کہ باپ پاک رُوح بھیجے گا اور ۱۵ باب میں وہ کہتا ہے کہ مَیں خود باپ کے ساتھ مِل کر رُوح اُلقدس بھیجوں گا۔ اِسی حوالہ میں ایک اَور توجہ طلب بات کہ رُوح کچھ کر رہا ہے یعنی یسوع کی گواہی دے رہا ہے۔ اِس سے بھی ثابت ہُوا کہ رُوح ایک الگ ہستی ہے، اور مسیح یسوع کے خدا ہونے کا بھی اِقرار ہے۔ ذرا تصور کیجئے کہ خدا بذاتِ خود ہمارے اندر آ کر سکونت کرے اور یسوع کی گواہی دے۔ کیا یہ مسیح کے پیروکاروں کے لئے اُمید و اِطمینان کی بات نہیں؟ لہذا ثابت ہُوا کہ مسیح یسوع خدا ہے، رُوح اُلقدس ایک آسمانی ہستی ہے جو باپ اور بیٹے سے الگ ہے۔ اور باپ، بیٹا اور رُوح ایک ساتھ مِل کر پوری ہم آہنگی سے کام کرتے ہیں۔ ایک خدا میں تین آسمانی ہستیاں، مگر پھر بھی خدا ایک ہے۔

اَب سوال یہ ہے کہ کیا خدا شفا بخشنے والا خدا بھی ہے؟ اور خدا کی یہی وہ خصُوصیت ہے جس پر ہم اپنے اگلے پروگرام میں روشنی ڈالیں گے کہ خدا شفا بخشنے والا خدا ہے، ضرور سُنئیے گا۔