Skip to content

خدا ہمارا آسمانی باپ ہے

Posted in خُدا کی تلاش

باپ اُس خوبصورت رشتے کا نام ہے جو نہ صرف ہمیں جنم دیتا ہے بلکہ اُس کے پیار کی چھائوں میں ہمیں احساسِ تحفظ اور سکونِ قلب مِلتا ہے۔ بچپن ہی سے وہ کبھی اُنگلی پکڑ کر، کبھی کندھوں پر اور کبھی گود میں اُٹھا کر ہماری حفاظت و نگہبانی کرتا ہے کہ کہیں گر کر چوٹ نہ لگ جائے یا تھک نہ جائیں۔ اور ہم بھی اُس کے سائے میں چل کر اپنے آپ کو ہر تکلیف، ہر مُصیبت سے محفوظ سمجھتے ہیں۔ یقیناً وہ ہمارا فخر اور ہمارا مضبوط قلعہ ہوتا ہے۔ کیونکہ وہ دِن رات محنت مشقت کر کے ہمیں پالتا اور ہماری ہر خوشی کو پورا کرتا ہے۔ ہر وقت ہماری بہتری کا سوچتا، اور کامیاب و خوشحال زندگی کے خواب دیکھتا ہے۔ اور اگر بھٹک کر گمراہ ہو جائیں تو فکر مندی سے دُعائیں، اِلتجائیں کرتا اور تڑپتا ہے کہ باپ کے لئے دُکھ تکلیف کا سبب نہ بنیں۔ تو یہ ہے جسمانی باپ کی ایک جھلک۔ مگر دوسری طرف اگر ہم خدا کے خاندان میں شامل ہیں تو خدا ہمارا آسمانی باپ ہے جس کو نہ صرف ہماری جسمانی بلکہ رُوحانی خوراک کی بھی فکر ہوتی ہے۔ آئیے دیکھتے ہیں کہ بائبل مُقدس ہمارے آسمانی باپ کو کیسے بیان کرتی ہے، ’’اور سب کا خدا اور باپ ایک ہی ہے جو سب کے اُوپر اور سب کے درمیان اور سب کے اندر ہے۔‘‘ (افسیوں ۴:۶) ایک اَور مقام پر لکھا ہے، ’’خدا اپنے مُقدس مکان میں یتیموں کا باپ اور بیوائوں کا داد رَس ہے۔‘‘ (زبور ۶۸:۵) پاک اِلہامی کلام میں قلمبند ہے، ’’کیا ہم سب کا ایک ہی باپ نہیں؟ کیا ایک ہی خدا نے ہم سب کو پیدا نہیں کِیا؟…‘‘ (ملاکی ۲:۱۰) اور پھر لکھا ہے، ’’تو بھی اَے خداوند! تُو ہمارا باپ ہے۔ ہم مٹی ہیں اور تُو ہمارا کُمہار ہے اور ہم سب کے سب تیری دستکاری ہیں۔‘‘ (یسعیاہ ۶۴:۸) جس طرح ہمارا آسمانی باپ ہمیں تخلیق کرتا اور زندگی دیتا ہے اُسی طرح جسمانی باپ بھی ہمیں پیدا کرتا اور زندگی دیتا ہے اِسی لئے ہم اُسے پتا، پاپا، ڈیڈی، ابو یا ابا کہہ کر بُلاتے ہیں۔ مگر ذہن میں رہے کہ جسمانی باپ کو خواہ کوئی بھی نام دیں وہ خطائوں اور قصوروں سے بھرا ہُوا ایک کمزور اِنسان ہے، اِسی لئے بہت سے بچوں کا اپنے باپ کے ساتھ رشتہ اِنتہائی خراب ہوتا ہے کیونکہ اُنہیں اپنے باپ میں وہ شفقت و پیار نظر نہیں آتا جو ایک اچھے باپ میں ہونا چاہیے۔ دوسرے لفظوں میں یہ کہ اُن کا باپ اُن کے لئے ایک اچھا رول ماڈل نہیں ہوتا اور کوشش کرتے ہیں کہ اپنے باپ کی بُری عادتیں اور خامیاں اُن میں نہ ہوں۔ مگر اکثر اپنی اِس کوشش میں کامیاب نہیں ہوتے اور ہو بہُو وہی غصہ، وہی ہٹ دھرمی، وہی تلخ مزاجی، وہی ڈانٹ ڈپٹ، وہی دنگا فساد، وہی جھوٹ اور وہی دُھوکا آ موجود ہوتا ہے، اور اپنے اِن عیبوں اور بُرائیوں کے سبب سے جہاں جاتے ہیں ذلیل و رسوا ہی ہوتے ہیں۔ اور جب کوئی اِن بُرائیوں کا احساس دِلاتا ہے تو باپ پر اِلزام دھرتے ہیں کہ یہ سب باپ سے سیکھا ہے حالانکہ خود اپنی زندگی کا بغور جائزہ نہیں لیا ہوتا اور نہ ہی اپنے آپ کو سُدھارنے اور راہِ راست پر لانے کی کوشش کی ہوتی ہے۔ اِسی لئے کسی نے کیا خوب کہا ہے جیسا باپ ویسا بیٹا۔ دوسری طرف آئیے دیکھتے ہیں خدا کا بیٹا یسوع مسیح اپنے باپ یعنی خدا کے بارے میں کیا کہتا ہے، ’’پس چاہیے کہ تم کامِل ہو جیسا تمہارا آسمانی باپ کامِل ہے۔‘‘ (متی ۵:۴۸) مسیح کی سیرت و کردار اور پاکیزگی و راستبازی کا یہ عالم ہے کہ اُس کے دُشمن بھی اُس میں کوئی عیب یا گناہ ثابت نہ کر سکے کیونکہ جیسے باپ پاک و قدُوس ہے اُسی طرح بیٹے میں بھی قدُوسیت و الوہیت کی ساری معموری نظر آتی ہے۔ جو دعویٰ مسیح یسوع نے اپنے پیروکاروں کے سامنے کِیا وہ دعویٰ نہ کسی نے پہلے کِیا اور نہ کبھی کوئی کر سکتا ہے، ’’اگر تم نے مجھے جانا ہوتا تو میرے باپ کو بھی جانتے۔ اَب اُسے جانتے ہو اور دیکھ لیا ہے۔ فلپس نے اُس سے کہا اَے خداوند! باپ (یعنی خدا) کو ہمیں دِکھا۔ یہی ہمیں کافی ہے۔ یسوع نے اُس سے کہا اَے فلپس! مَیں اِتنی مُدت سے تمہارے ساتھ ہوں کیا تُو مجھے نہیں جانتا؟ جس نے مجھے دیکھا اُس نے باپ کو دیکھا، تُو کیونکر کہتا ہے کہ باپ کو ہمیں دِکھا؟ کیا تُو یقین نہیں کرتا کہ مَیں باپ میں ہوں اور باپ مجھ میں ہے؟ یہ باتیں جو مَیں تم سے کہتا ہوں اپنی طرف سے نہیں کہتا لیکن باپ مجھ میں رہ کر اپنے کام کرتا ہے۔ میرا یقین کرو کہ مَیں باپ میں ہوں اور باپ مجھ میں۔ نہیں تو میرے کاموں ہی کے سبب سے میرا یقین کرو۔‘‘ (یوحنا ۱۴:۷-۱۱)

اِس سے پہلے بھی مسیح یسوع نے یہودیوں کے مجمع کو مخاطب کرتے ہوئے یہی دعویٰ کِیا، ’’مَیں اور باپ ایک ہیں۔‘‘ (یوحنا ۱۰:۳۰) اور باپ یعنی خدا نے بھی مسیح کے اِس دعوے کی تصدیق کرتے ہوئے کہا، ’’…یہ میرا پیارا بیٹا ہے جس سے مَیں خوش ہوں۔ (متی۳:۱۷)

معزز سامعین! مسیح یسوع کا یہ دعویٰ کہ جس نے مجھے دیکھا اُس نے خدا کو دیکھا، خدا مجھ میں ہے اور مَیں خدا میں ہوں، مَیں اور خدا ایک ہیں، کوئی معمولی دعویٰ نہیں۔ اگر آپ واقعی خدا کی تلاش میں ہیں تو سچے دِل سے اِس اِلٰہی دعوے کے بارے میں ضرور سوچئے کہ کیا کوئی اپنے آپ کو خدا کے برابر ٹھہرا سکتا ہے؟ جِتنے نبی پیغمبر دُنیا میں آئے اُنہوں نے بنی نوع اِنسان کو خدا کا کلام تو سُنایا اور خدا کی طرف جانے کا راستہ بھی دِکھایا مگر خدا کے برابر ہونے کا دعویٰ کسی نے کبھی نہیں کِیا۔ اور جِنہوں نے کِیا وہ ہمیشہ جھوٹا ہی ثابت ہُوا۔ صرف خدا کے بیٹے یسوع مسیح نے خدا کے برابر ہونے کا دعویٰ کِیا اور اپنے باپ یعنی خدا کو پورے طور پر ہم پر ظاہر بھی کِیا۔ آئیے دیکھتے ہیں بائبل مُقدس اِس بارے میں کیا کہتی ہے۔ ’’اگلے زمانہ میں خدا نے باپ دادا سے حِصہ بہ حِصہ اور طرح بہ طرح نبیوں کی معرفت کلام کر کے، اِس زمانہ کے آخر میں ہم سے بیٹے (یعنی مسیح) کی معرفت کلام کِیا جِسے اُس نے سب چیزوں کا وارث ٹھہرایا اور جس کے وسیلہ سے اُس نے عالم بھی پیدا کِئے۔ وہ اُس کے جلال کا پَر تَو اور اُس کی ذات کا نقش ہو کر سب چیزوں کو اپنی قدرت کے کلام سے سنبھالتا ہے۔ وہ گناہوں کو دُھو کر عالمِ بالا پر کبریا کی دہنی طرف جا بیٹھا، اور فرشتوں سے اِسی قدر بزرگ ہو گیا جس قدر اُس نے مِیراث میں اُن سے افضل نام پایا کیونکہ فرشتوں میں سے اُس نے کب کسی سے کہا کہ تُو میرا بیٹا ہے۔ آج تُو مجھ سے پیدا ہُوا، اور پھر یہ کہ مَیں اُس کا باپ ہوں گا اور وہ میرا بیٹا ہو گا؟‘‘ (عبرانیوں ۱:۱-۵) بِلا شک و شبہ بیٹا اور باپ یعنی مسیح یسوع اور خدا ایک ہیں۔ جو خوبیاں، اَوصاف اور خصوصیات خدا میں ہیں وہی بیٹے میں بھی ہیں۔ اَب سوال یہ ہے کہ کیا ہم بھی جو جسمانی ہیں خدا کو اپنا آسمانی باپ کہہ سکتے ہیں یا کیا خدا ہمیں اپنے خاندان میں شامل کر کے باپ کا پیار دے سکتا ہے؟ بہنو اور بھائیو! ایک بات اچھی طرح ذہن میں بِٹھا لیں کہ اگر آپ خدا کے خاندان میں شامل نہیں تو آپ کے پاس اُسے باپ کہنے کا حق نہیں ہاں، اپنے عقیدے کے مطابق آپ اُسے کچھ بھی نام دیں مگر وہ آپ کا آسمانی باپ ہرگز نہیں۔ خدا کو آسمانی باپ کہنے کے لئے آپ کو اپنے گناہوں سے نجات پا کر خدا کے خاندان میں شامل ہونا ہے ورنہ آپ کا یہ خواب کبھی پورا نہیں ہو سکتا۔ لاکھ چیخیں چِلائیں، آسمانی گھر کی کھڑکیاں توڑنے اور دیواریں پھلانگنے کی کوشش کریں کہ کسی طرح آسمانی باپ تک پہنچ جائیں مگر آپ کو ہمیشہ ناکامی کا منہ ہی دیکھنا پڑے گا کیونکہ شریف لوگ گھر میں کھڑکیاں توڑ کر اور دیواریں پھلانگ کر داخل نہیں ہوتے بلکہ دروازہ کھٹکھٹا کے اندر آتے ہیں۔ مسیح یسوع نے فرمایا، ’’دروازہ مَیں ہوں، اگر کوئی مجھ سے داخل ہو تو نجات پائے گا…‘‘ (یوحنا ۱۰:۹) ایک اَور موقع پر اُنہوں نے فرمایا، ’’مانگو تو تم کو دیا جائے گا۔ ڈھونڈو تو پائو گے۔ دروازہ کھٹکھٹائو تو تمہارے واسطے کھولا جائے گا، کیونکہ جو کوئی مانگتا ہے اُسے مِلتا ہے اور جو ڈھونڈتا ہے وہ پاتا ہے اور جو کھٹکھٹاتا ہے اُس کے واسطے کھولا جائے گا۔‘‘ (متی ۷:۷-۸)

معزز سامعین! آسمانی گھر یعنی آسمان کی بادشاہی میں داخل ہونے اور خدا سے باپ کا رشتہ جوڑنے کے لئے ہمیں مانگنے، ڈھونڈنے اور دروازہ کھٹکھٹانے کی ضرورت ہے۔ ہم گناہوں میں کِتنے ہی لت پت کیوں نہ ہوں، ہمارا خداوند آپ کے لئے اپنے قول و کلام کے مطابق دروازہ کھول کر خدا کی بادشاہی میں داخل کرے گا اور خدا کو آسمانی باپ کہنے کا حق بخشے گا۔ شائد آپ اِدھر اُدھر مانگ مانگ کر، ڈھونڈ ڈھونڈ کر اور دروازے کھٹکھٹا کھٹکھٹا کر تھک گئے ہیں۔ شائد آپ دِل ہی دِل میں شرمندہ ہیں کیونکہ مانگنے سے نہ تو آپ کو کچھ مِلا، ڈھونڈنے سے نہ آپ نے کچھ پایا اور نہ کھٹکھٹانے سے کسی نے دروازہ کھولا، مگر ہم گارنٹی سے کہتے ہیں کہ آج آپ نجات پانے کے لئے آسمانی گھر کے دروازے پر کھڑے ہیں، جہاں مسیح یسوع دروازہ کھولنے کے لئے تیار کھڑا ہے، ’’دروازہ مَیں ہوں، اگر کوئی مجھ سے داخل ہو تو نجات پائے گا…‘‘ (یوحنا ۱۰:۹)

دوستو! مسیح یسوع کا یہ دعویٰ خدا کے منصوبے اور اِرادے کے عین مطابق ہے، کیونکہ جب تک ہم شریعت کے ماتحت تھے دُنیاوی باتوں کے پابند ہو کر غلامی کی حالت میں تھے

مگر خدا ہمیں اپنے خاندان میں شامل کرنا چاہتا تھا تاکہ آیندہ کو ہم شریعت کی غلامی میں نہ رہیں۔ اور نجات و بحالی کا یہ عظیم کام خدا نے اپنے بیٹے مسیح یسوع کے وسیلہ سے پورا کِیا۔ پاک اِلہامی کلام میں لکھا ہے، ’’لیکن جب وقت پورا ہو گیا تو خدا نے اپنے بیٹے کو بھیجا جو عورت سے پیدا ہُوا اور شریعت کے ماتحت پیدا ہُوا تاکہ شریعت کے ماتحتوں کو مول لے کر چُھڑا لے اور ہم کو لے پالک ہونے کا درجہ مِلے۔ اور چونکہ تم بیٹے ہو اِس لئے خدا نے اپنے بیٹے کا رُوح ہمارے دِلوں میں بھیجا جو ابا یعنی اَے باپ! کہہ کر پُکارتا ہے۔ پس اَب تُو غلام نہیں بلکہ بیٹا ہے اور جب بیٹا ہُوا تو خدا کے وسیلہ سے وارث بھی ہُوا۔‘‘ (گلتیوں ۴:۴-۷)

جب ہم مسیح یسوع کو اپنا نجات دہندہ قبول کر کے خدا کے خاندان میں شامل ہو جاتے ہیں تو نہ صرف خدا کی بادشاہی کے وارث بلکہ اُس کا رُوح ہمارے دِلوں میں سکونت کر کے ہمیں یہ حق بخشتا ہے کہ ہم خدا کو اَبا یعنی باپ کہہ کر مخاطب کریں۔

مگر یہ بھی ذہن میں رہے کہ خدا باپ ہونے کے ساتھ ساتھ بیٹا اور رُوح بھی ہے۔ مگر یہ کیسے ممکن ہو سکتا ہے کہ خدا ایک ساتھ باپ، بیٹا اور رُوح ہے؟ کیا تینوں ایک ہیں؟ خدا کی یہی وہ خصُوصیت ہے جس کا ہم اپنے اگلے پروگرام میں ذِکر کریں گے کہ خدا باپ، بیٹا اور رُوح ہے، سُننا مت بھولئیے گا۔