Skip to content

خدا صبر کرنے والا خدا ہے

Posted in خُدا کی تلاش

کچھ لوگ یا تو پیدائشی صبر والے ہوتے ہیں یا حالات و تجربات صبر و تحمل سِکھا دیتے ہیں۔ صبر و برداشت ایک ایسی خوبی ہے جو اِنسان کے مضبوط کردار اور ذہنی پختگی کی عکاسی کرتی ہے۔ مگر جو صبر سے خالی بے صبرا اِنسان ہوتا ہے وہ شرمندگی و ندامت ہی اُٹھاتا ہے۔ یہ وہی شرمندگی اور ندامت ہے جو اُسے باغِ عدن میں اُٹھانا پڑی جب شیطان نے سانپ کا رُوپ دھار کر وہ پھل کھانے کو دیا جِسے خدا نے سختی سے منع کِیا تھا۔ اگر آدم و حَوا میں تھوڑا سا بھی صبر ہوتا تو سانپ سے کہتے کہ ہمیں تھوڑا سوچنے کا موقع دو، ہم آپس میں صلاح مشورہ کر لیں کہ تیرے کہنے پر یہ پھل کھانا چاہیے یا نہیں۔ کیونکہ وہ خوشنما درخت کا پھل تھا جِسے دیکھتے ہی وہ بے صبرے ہو گئے اور اِسی بے صبری میں اپنے تخلیق کار کی یہ تنبیہ و وارنِنگ بھول گئے کہ جس دِن تُو نے اِس درخت کا پھل کھایا تُو مرا۔ جیسا کہ پاک کلام میں لکھا ہے، ’’اور خداوند خدا نے آدم کو حکم دیا اور کہا کہ تُو باغ کے ہر درخت کا پھل بے رُوک ٹوک کھا سکتا ہے، لیکن نیک و بد کی پہچان کے درخت کا کبھی نہ کھانا کیونکہ جس روز تُو نے اُس میں سے کھایا تُو مرا۔‘‘ (پیدایش ۲:۱۶-۱۷)

بے صبری کا یہی وہ تفرقہ انگیز بیج ہے جو ہمیں خدا کی حکم عدُولی کرنے میں جلدی کرتا ہے، اور ہم گمراہ و برگشتہ ہو کر اپنے تخلیق کار سے چھپتے پھرتے ہیں۔ مگر خدا صبر کرنے والا خدا ہے وہ ہمارے گناہوں اور قصوروں کے مُوافق ہم سے سلوک نہیں کرتا بلکہ تحمل و برداشت کرتا ہے۔ خدا کی یہ خوبی ہمارے اندر حوصلہ اور اعتماد پیدا کرتی ہے کہ وہ جلد غصہ میں بھڑک نہیں اُٹھتا بلکہ رحم و فضل کرتا ہے۔ جیسا کہ پاک کلام میں لکھا ہے، ’’پس آئو ہم فضل کے تخت کے پاس دلیری سے چلیں تاکہ ہم پر رحم ہو اور وہ فضل حاصل کریں جو ضرورت کے وقت ہماری مدد کرے۔‘‘ (عبرانیوں ۴:۱۶)

ذرا سوچئیے کہ اگر خدا صبر کرنے والا خدا نہ ہوتا تو آج ہمارا وجود نہ ہوتا بلکہ اپنی حکم عدُولیوں اور نافرمانیوں کے سبب کب کے صفحہٴ ہستی سے مٹ چکے ہوتے۔ کیونکہ وہ محبت کرنے والا صابر خدا ہے اِسی لئے وہ ہمیں ہلاک کر کے خوش نہیں ہوتا بلکہ کوشش کرتا رہتا ہے کہ ہم اپنی شریر راہ سے باز آئیں اور زندہ رہیں۔ بائبل مُقدس میں لکھا ہے کہ خداوند خدا نے بنی اِسرائیل کی خطائوں اور گناہوں کو دیکھ کر اپنے بندے حزقی ایل نبی کو حکم دیا کہ، ’’تُو اُن سے کہہ خداوند خدا فرماتا ہے مجھے اپنی حیات کی قَسم شریر کے مرنے میں مجھے کچھ خوشی نہیں بلکہ اِس میں ہے کہ شریر اپنی راہ سے باز آئے اور زندہ رہے۔‘‘ (حزقی ایل ۳۳:۱۱) ایک اَور مقام پر لکھا ہے، ’’تو بھی خداوند تم پر مہربانی کرنے کے لئے اِنتظار کرے گا اور تم پر رحم کرنے کے لئے بلند ہو گا کیونکہ خداوند عادل خدا ہے۔ مُبارک ہیں وہ سب جو اُس کا اِنتظار کرتے ہیں۔‘‘ ( یسعیاہ ۳۰ :۱۸) اور بائبل مُقدس ہی میں خدا کے صبر و تحمل کا یوں ذِکر ہے، ’’یا تُو اُس کی مہربانی اور تحمل اور صبر کی دولت کو ناچیز جانتا ہے اور نہیں سمجھتا کہ خدا کی مہربانی تجھ کو توبہ کی طرف مائل کرتی ہے۔‘‘ (رومیوں ۲:۴) اور پھر لکھا ہے، ’’ اور ہمارے خداوند کے تحمل کو نجات سمجھو۔…‘‘ (۲-پطرس ۳:۱۵)

تو سامعین آپ نے دیکھا کہ خدا کے صبر و تحمل کی بُنیادی وجہ کیا ہے۔ اگرچہ ہماری سَرکشی، تکبر اور گناہوں کے سبب سے خدا ہم سے خوش نہیں مگر اُس کی محبت و عدل کا تقاضا ہے کہ وہ اپنے ہاتھ سے تخلیق کی ہوئی مخلوق کو جہنم کی نہ بجھنے والی آگ سے بچائے۔ ورنہ ہماری اَوقات کیا تھی، مٹی کا ایک بے جان سا لوتھڑا مگر اُس نے مٹی کے اِس بے جان لوتھڑے میں زندگی کا دَم یعنی اپنا دَم پھونکا، اور اِنسان جیتی جان ہُوا۔ یہ وجہ ہے کہ خدا ہم سے بے پناہ محبت کرتا ہے، اور ہم سے دُوری ہرگز برداشت نہیں کر سکتا۔ مگر کمزور اور بے صبرا اِنسان ہونے کے ناتے ہم مُصیبتوں اور آزمائشوں سے گھبرا کر خدا کی قدرت و طاقت بارے شک میں پڑ جاتے ہیں، اور بھول جاتے ہیں کہ اگر صبر سے مُصیبتوں، تکلیفوں اور آزمایشوں کا سامنا کریں تو خدا کی طرف سے اِنعام پائیں گے۔ پاک اِلہامی کلام میں لکھا ہے، ’’اور صرف یہی نہیں بلکہ مُصیبتوں میں بھی فخر کریں یہ جان کر کہ مُصیبت سے صبر پیدا ہوتا ہے اور صبر سے پختگی اور پختگی سے اُمید پیدا ہوتی ہے۔‘‘ (رومیوں ۵:۳-۴)

ہم سوچ بھی نہیں سکتے کہ خدا ہمارے حق میں کِتنا صبر کرتا ہے۔ ہمارے تو اپنے خاندان کے والے ہماری حرکتوں کی وجہ سے ہمیں برداشت نہیں کرتے اور ایک دِن اُن کے صبر کا پیمانہ لبریز ہو جاتا ہے مگر خداوند خدا کی محبت دیکھئے کہ تمام تر کمزوریوں، نافرمانیوں، قصوروں اور گناہوں کے باوجود ہمارے ساتھ صبر و تحمل کرتا ہے۔

خدا کا یہی صبر و تحمل ہمیں اُس کے بیٹے یسوع مسیح میں بھی نظر آتا ہے جِسے اُس نے ہمارے گناہوں کا کفارہ دینے کے لئے صلیب پر قربان کِیا۔ صلیب پر مسیح کا بہتا ہُوا بے گناہ خون خدا کے صبر و تحمل اور اِیثار و قربانی کا ایک جیتا جاگتا ثبوت ہے۔ ہمیں مسیح میں جو صبر و تحمل نظر آتا ہے اُسے خدا ہی کی طرف سے مِلا ہے کیونکہ بیٹا جو باپ کو کرتے دیکھتا ہے وہی کرتا ہے۔ اِسی لئے مسیح یسوع نے اپنے بارے میں فرمایا، ’’…مَیں تم سے سچ کہتا ہوں کہ بیٹا آپ سے کچھ نہیں کر سکتا سِوا اُس کے جو باپ کو کرتے دیکھتا ہے کیونکہ جن کاموں کو وہ کرتا ہے اُنہیں بیٹا بھی اُسی طرح کرتا ہے۔ اِس لئے کہ باپ بیٹے کو عزیز رکھتا ہے اور جتنے کام خود کرتا ہے اُسے دِکھاتا ہے بلکہ اِن سے بھی بڑے کام اُسے دِکھائے گا تاکہ تم تعجب کرو کیونکہ جس طرح باپ مُردوں کو اُٹھاتا اور زندہ کرتا ہے اُسی طرح بیٹا بھی جنہیں چاہتا ہے زندہ کرتا ہے۔‘‘ (یوحنا ۵:۱۹-۲۱)

جس طرح باپ یعنی خدا مُردوں کو زندہ کرتا اور زندگی کو پیدا کرتا ہے اُسی طرح بیٹا یعنی مسیح بھی مُردوں کو زندہ کرتا اور زندگی دیتا ہے۔ جس طرح باپ بنی نوع اِنسان کے ساتھ صبرو تحمل کرتا ہے اُسی طرح بیٹا بھی ہمارا صبر کے ساتھ اِنتظار کرتا ہے تاکہ ہم گناہوں سے توبہ کریں اور اُس کے پاس آئیں۔ خدا کے صبر کا یہ سفر باغِ عدن میں ممنوعہ پھل کھانے سے شروع ہُوا اور مسیح کی صلیب پر نجات اور حیات بخش پھل کی صورت میں تمام ہُوا، اور خوشی کی بات یہ ہے کہ صبر و تحمل کا یہ سفر مسیح یسوع میں آج بھی جاری ہے۔ اِسی لئے بائبل مُقدس میں پولس رسول خدا کے لوگوں کے لئے برکاتی کلمات ادا کرتے ہوئے مسیح یسوع کے صبر کو یوں خراج تحسین پیش کرتا ہے، ’’خداوند تمہارے دِلوں کو خدا کی محبت اور مسیح کے صبر کی طرف ہدایت کرے۔‘‘ (۲-تھسلنیکیوں ۳:۵) پولس رسول یہاں مسیح کے پیروکاروں کو واضح طور پر کہتا ہے کہ وہ اپنے دِلوں کو مسیح کے صبر کی ہدایت کی طرف لگائیں۔ مطلب یہ ہُوا کہ مسیح یسوع کے صبر کو جاننا ایسے ہی ہے کہ ہم نے خدا کی محبت کو جان لیا ہے۔ اگر ہم مسیح یسوع کو سچے دِل سے قبول کرتے ہیں تو آج ہم بھی اُس کے صبر کی ہدایت کی طرف اپنا دِل لگا کر ابدی آرام و سکون اور ہمیشہ کی زندگی پا سکتے ہیں۔ آئیے دیکھتے ہیں کہ پولس رسول اِلہامی کلام میں کیا کہتا ہے، ’’لیکن مجھ پر رحم اِس لئے ہُوا کہ یسوع مسیح مجھ بڑے گناہگار میں اپنا کمال تحمل ظاہر کرے تاکہ جو لوگ ہمیشہ کی زندگی کے لئے اُس پر (یعنی مسیح پر) اِیمان لائیں گے اُن کے لئے مَیں نمونہ بنوں۔‘‘ (۱-تمتھیس ۱:۱۶)

ایک اَور مقام پر پولس کہتا ہے، ’’چنانچہ میری دِلی آرزو اور اُمید یہی ہے کہ مَیں کسی بات میں شرمندہ نہ ہوں بلکہ میری کمال دلیری کے باعث جس طرح مسیح کی تعظیم میرے بدن کے سبب سے ہمیشہ ہوتی رہی ہے اُسی طرح اَب بھی ہو گی خواہ مَیں زندہ رہوں خواہ مروں کیونکہ زندہ رہنا میرے لئے مسیح ہے اور مرنا نفع۔‘‘ (فلپیوں۱:۲۰-۲۱)

کیا ہم پولس رسول کی طرح یہ دعویٰ کر سکتے ہیں؟ نہیں، ہم ایسا دعویٰ نہیں کر سکتے کیونکہ ہم تو گناہوں کے بھاری بوجھ تلے دبے ہوئے ہیں۔ ہر روز گناہ کرتے، معافیاں مانگتے اور پھر وہی کام کرتے ہیں جس سے خدا کو نفرت ہے۔ جھوٹ بولتے اور دھوکا دیتے ہیں۔ شہوت پرستی، حرامکاری کرتے، شراب پیتے اور گالیاں بکتے ہیں۔ حسد، لالچ، نفرت، حقارت اور بغض سے بھرے رہتے ہیں۔ اپنی غرض کے لئے خدا کی طرف سے جھوٹی نبوتیں، جھوٹے خواب گھڑتے ہیں۔ خدا کے کام میں نہ صرف رکاوٹ بنتے ہیں بلکہ خدا کی جھوٹی نمائندگی کرتے اور جھوٹی راستبازی دِکھاتے ہیں اور خدا کے نام پر لوگوں سے جھوٹ بول بول کر پیسہ بٹورتے ہیں۔ مگر خدا کا صبر دیکھئے کہ وہ کِس محبت و رحمدلی اور صبر و تحمل سے ہماری اِن حرکتوں کو برداشت کرتا ہے۔ مگر ذہن میں رہے کہ اُس کے صبر و برداشت کی ایک حد ہے۔ لازم ہے کہ اُس کا قہر و غضب بھڑکنے سے پہلے ہی اُس کے آگے جُھک جائیں۔ آئیے پولس رسول کی طرح ہم بھی عاجزی و حلیمی کے ساتھ دُعا کریں کہ اَے خدا تُو مجھ گناہگار پر اپنا رحم و فضل کر اور میرے اندر کمال دلیری پیدا کر، میرے بدن سے ہمیشہ تیری تعظیم ہو تاکہ میرے نمونہ کو دیکھ کر لوگ تجھ پر اِیمان لائیں۔

آئیے آج پوری اِیمانداری سے اپنے اندر جھانک کر دیکھیں اور پرکھیں کہ کیا ہمارا نمونہ ایسا ہے کہ دیکھنے والوں کو ہم میں مسیح نظر آئے؟ کیا آج مذہبی علُما، دینی اُستاد اور رہنما یہ دعویٰ کر سکتے ہیں کہ میرے اُٹھنے بیٹھنے، بول چال اور سیرت و کردار سے لوگوں کو مسیح نظر آتا ہے؟ اگر نہیں تو حلیمی و فروتنی سے اپنی رُوحانی حالت پر غور کیجئے کیونکہ خدا نے اِنسان کو پیدا ہی اِس لئے کِیا ہے کہ دیکھنے والے اُس میں خدا کا جلال دیکھیں۔ ہمارا زمین پر بحیثیت خدا کے خادم و سفیر رہنے کا مقصد ہی یہ ہے کہ ہم خدا کے نام کو عزت اور جلال دیں۔ جیسا کہ خدا کے پاک کلام میں لکھا ہے، ’’ہر ایک کو جو میرے نام سے کہلاتا ہے اور جس کو مَیں نے اپنے جلال کے لئے خلق کِیا، جِسے مَیں نے پیدا کِیا ہاں، جِسے مَیں ہی نے بنایا۔‘‘ (یسعیاہ ۴۳:۷)

اَب دوسری طرف بہت سے غیر مسیحی سوال کرتے ہیں کہ خدا کو اِتنا صبر و تحمل کرنے کی کیا ضرورت تھی؟ اُس وقت ہی تباہ و برباد کیوں نہ کر دیا جب پہلی مرتبہ اِنسان کی رغبت گناہ کی طرف ہوئی تھی؟ آدم اور حَوا کو جہنم کی آگ میں کیوں نہ پھینک دیا؟ تو اِس کا جواب یہ ہے کہ خدا چاہتا تھا کہ مَیں اور آپ، ہم سب دُنیا میں جنم لے کر آزادی کے ساتھ اچھی بُری راہ کا اِنتخاب کریں جیسے اُس نے یہ حق آدم و حَوا کو دیا۔

معزز سامعین! ہمارا تخلیق کار اپنی مخلوق کی ہلاکت نہیں چاہتا کیونکہ وہ ہمارا آسمانی باپ ہے، اور خدا کی یہی وہ خصوصیت ہے جس کا ذِکر ہم اگلے پروگرام میں کریں گے کہ خدا ہمارا آسمانی باپ ہے، ضرور سُنئیے گا۔