Skip to content

خدا حکمت و دانش والا خدا ہے

Posted in خُدا کی تلاش

دُنیا میں دو طرح کے لوگ ہوتے ہیں جو پہلی ہی ملاقات میں پہچانے جاتے ہیں یا تھوڑی دیر بات کرنے سے اپنا آپ دِکھا دیتے ہیں کہ وہ حکمت و دانش رکھتے یا احمق و بے و قوف ہیں۔ دونوں کو دُنیا والے مختلف زاویوں اور پہلوئوں سے جانچتے، پرکھتے ہیں اور دونوں لوگوں کے دِلوں میں یا تو عزت و احترام پاتے ہیں یا اُنہیں دیکھتے ہی یار لوگ کنی کتراتے ہیں کہ یہ پاگل کہاں سے آ ٹپکا ہے۔ دانشمند کی باتیں دانائی سِکھاتی ہیں اور پاس سے اُٹھنے کو دِل نہیں کرتا اور اگر بے و قوف سے پالا پڑ جائے تو نظر گھڑی پر ہوتی ہے کہ کب جان چھوڑے گا۔

معزز سامعین! حکمت و دانش خدا کا وصف اور خدا کی نعمت ہے، وہی علم و فہم کا سر چشمہ ہے، اور وہی اپنے بندوں کو عقل و سمجھ عطا کرتا ہے۔ پاک کلام میں لکھا ہے، ’’کیونکہ خداوند حکمت بخشتا ہے۔ علم و فہم اُسی کے منہ سے نکلتے ہیں۔‘‘ (امثال ۲:۶) ہمیں نہ صرف خدا سے حکمت و دانش، سمجھ و فہم مانگنے کی ضرورت ہے بلکہ یہ بھی کہ ہم اِسے اِستعمال کیسے کریں۔ خدا حکمت و دانش والا خدا ہے۔ اِسی لئے بائبل مُقدس میں لکھا ہے، ’’خدا میں سمجھ اور قوت ہے۔ اُس کے پاس مصلحت اور دانائی ہے۔‘‘ (ایوب ۱۲:۱۳) پھر لکھا ہے، ’’کیا تُو نہیں جانتا؟ کیا تُو نے نہیں سُنا کہ خداوند خدایِ ابدی و تمام زمین کا خالق تھکتا نہیں اور ماندہ نہیں ہوتا؟ اُس کی حکمت اِدراک سے باہر ہے۔‘‘ (یسیعاہ ۴۰:۲۸) بائبل مُقدس خدا کی حکمت کو یوں بیان کرتی ہے، ’’اُسی نے اپنی قدرت سے زمین کو بنایا۔ اُسی نے اپنی حکمت سے جہان کو قائم کِیا اور اپنی عقل سے آسمان کو تان دیا ہے۔‘‘ (یرمیاہ ۵۱:۱۵)

ذرا سوچئے کہ جو خدا اپنی حکمت و سمجھ سے زمین و آسمان کو بنا سکتا ہے وہ بندوں کی زندگی میں کیسے کیسے عجیب کام نہ کرے گا۔ خدا کی حکمت ہمیں زندگی میں بہتر فیصلے کرنا سِکھاتی ہے بلکہ پاک کلام کے وعدے کے مطابق ہمیں خوشی، اِطمینان، عمر کی درازی، مال و دولت اور عزت و وقار عطا کرتی ہے۔ آئیے دیکھتے ہیں کہ خدا کے بندے سلیمان نے خدا کی حکمت بارے کیا کہا، ’’اَے میرے بیٹے! میری تعلیم کو فراموش نہ کر بلکہ تیرا دِل میرے حکموں کو مانے کیونکہ تُو اِن سے عمر کی درازی اور پیری اور سلامتی حاصل کرے گا۔ شفقت اور سچائی تجھ سے جُدا نہ ہوں۔ تُو اُن کو اپنے گلے کا طوق بنانا اور اپنے دِل کی تختی پر لکھ لینا۔ یوں تُو خدا اور اِنسان کی نظر میں مقبولیت اور عقلمندی حاصل کرے گا۔ سارے دِل سے خداوند پر توکل کر اور اپنے فہم پر تکیہ نہ کر۔ اپنی سب راہوں میں اُس کو پہچان اور وہ تیری رہنمائی کرے گا۔ تُو اپنی ہی نگاہ میں دانشمند نہ بن۔ خداوند سے ڈر اور بدی سے کنارہ کر۔‘‘ (امثال ۳:۱-۸)

مگر جو خدا کی حکمت کو رَد کرتے اور اپنی عقل و فہم پر تکیہ کرتے ہیں، اُن کے بارے میں بائبل مُقدس کہتی ہے، ’’خداوند کا خوف عِلم کا شروع ہے، لیکن احمق حکمت اور تربیت کی حقارت کرتے ہیں۔‘‘ (امثال ۱:۷) 

حکمت چاندی سے زیادہ فائدہ مند اور سونے سے زیادہ نفع بخش ہے۔ حکمت زندگی کا وہ تر و تازہ درخت ہے جو خوشی و خوشحالی دیتا ہے۔ خدا کے پاک کلام میں یوں قلمبند ہے، ’’مُبارک ہے وہ آدمی جو حکمت کو پاتا ہے اور جو فہم حاصل کرتا ہے کیونکہ اِس کا حُصول چاندی کے حُصول سے اور اِس کا نفع کندن سے بہتر ہے۔‘‘ (امثال ۳:۱۳-۱۴) دائود نبی کا بیٹا سلیمان بادشاہ پاک کلام میں کہتا ہے، ’’حکمت افضل اصل ہے۔ پس حکمت حاصل کر بلکہ اپنے تمام حاصلات سے فہم حاصل کر۔‘‘ (اِمثال ۴:۷) اِس کا مطلب یہ ہے کہ ہمارے لئے نہایت ضروری ہے کہ ہم خدا کے پاک کلام سے حکمت و دانش حاصل کرنے کی کوشش کریں۔ اگر آپ کسی ایسی صورتِ حال میں گھرے ہوئے ہیں کہ نکلنے کی کوئی راہ نظر نہیں آتی تو آپ کو خدا سے حکمت و فہم مانگنے کی ضرورت ہے۔ اگر آپ کسی خطرناک بیماری کی وجہ سے پریشان ہیں تو خدا سے حکمت مانگیئے۔ اگر آپ کے مالی حالات قابو سے باہر ہیں تو خدا سے کہیئے کہ آپ کو حکمت و دانش عطا کرے۔ خواہ آپ کیسے ہی حالات کا شکار کیوں نہ ہوں خدا کے زندہ کلام سے علم و فہم حاصل کیجئے تو وہ آپ کا ذہن کھول کر آپ کو عقل و دانائی بخشے گا۔

مگر مسئلہ یہ ہے کہ ہم غرور و تکبر میں آ کر خدا کی حکمت پر نہیں اپنی محدُود عقل و سمجھ پر بھروسہ کرتے ہیں اور جب سب کچھ بگڑ جاتا ہے تو اِلزام خدا پر دھرتے ہیں حالانکہ ہم نے تو اُسے کام کرنے کا موقع ہی نہیں دیا ہوتا۔ دُنیا میں بہت کم لوگ ایسے ہیں جو اپنی بے پناہ دولت اور کامیابی کو خدا سے منسوب کرتے ہیں کہ آج مَیں جو کچھ بھی ہوں اپنی حکمت و دانش یا محنت مشقت سے نہیں بلکہ خدا کی برکت و رحمت سے ہوں۔ کیا دُنیا کے دولت مندوں کے پاس خدا کے بندے سلیمان بادشاہ سے زیادہ شان و شوکت، مال و دولت اور حکمت و فہم ہے؟ پاک کلام میں لکھا ہے، ’’سو سلیمان بادشاہ دولت اور حکمت میں زمین کے سب بادشاہوں پر سبقت لے گیا۔ اور سارا جہان سلیمان کے دیدار کا طالب تھا تاکہ اُس کی حکمت کو جو خدا نے اُس کے دِل میں ڈالی تھی سُنے۔‘‘

(۱-سلاطین ۱۰:۲۳-۲۴)

خدا نے اپنے بندے سُلیمان کو حکمت و فہم خود سے ہی نہیں دیا بلکہ اُس نے بڑی عاجزی اور اِنکساری سے اِلتجا کی کہ مجھے بُرے اور بھلے میں تمیز کرنا سِکھا تاکہ تیری قوم کا تیری دی ہوئی حکمت و سمجھ سے اِنصاف کر سکوں۔ اور سلیمان کی یہ عاجزی خدا کو پسند آئی اور کہا، ’’…چونکہ تُو نے یہ چیز (یعنی حکمت) مانگی اور اپنے لئے عمر کی درازی کی درخواست نہ کی اور نہ اپنے لئے دولت کا سوال کِیا اور نہ اپنے دُشمنوں کی جان مانگی بلکہ اِنصاف پسندی کے لئے تُو نے اپنے واسطے عقلمندی کی درخواست کی ہے۔ سو دیکھ مَیں نے تیری درخواست کے مطابق کِیا۔ مَیں نے ایک عاقل اور سمجھنے والا دِل تجھ کو بخشا ایسا کہ تیری مانند نہ تو کوئی تجھ سے پہلے ہُوا اور نہ کوئی تیرے بعد تجھ سا برپا ہو گا۔ اور مَیں نے تجھ کو کچھ اَور بھی دیا جو تُو نے نہیں مانگا یعنی دولت اور عزت، ایسا کہ بادشاہوں میں تیری عمر بھر کوئی تیری مانند نہ ہو گا۔‘‘ (۱-سلاطین ۳:۱۱-۱۳)

معزز سامعین! آپ نے دیکھا کہ حکمت و دانش خدا کا ایک بیش قیمت، نایاب تحفہ اور خزانہ ہے مگر ہمیں بھی سلیمان بادشاہ کی طرح پوری عاجزی و اِنکساری کے ساتھ خدا سے مانگنے کی ضرورت ہے تو وہ ہماری توقعات سے بڑھ کر دے گا۔ بائبل مُقدس کہتی ہے، ’’لیکن اگر تم میں سے کسی میں حکمت کی کمی ہو تو خدا سے مانگے جو بغیر ملامت کِئے سب کو فیاضی کے ساتھ دیتا ہے۔ اُس کو دی جائے گی مگر اِیمان سے مانگے اور کچھ شک نہ کرے کیونکہ شک کرنے والا سمندر کی لہر کی مانند ہوتا ہے جو ہَوا سے بہتی اور اُچھلتی ہے۔ ایسا آدمی یہ نہ سمجھے کہ مجھے خداوند سے کچھ مِلے گا۔‘‘ (یعقوب ۱:۵-۷)

مگر ایک اَور بات ذہن میں رہے کہ اِلٰہی حکمت و دانش اور برکات صرف اُن لوگوں کو مِلتی ہیں جو خدا کے خاندان میں شامل ہیں۔ خوشی و شادمانی، اِطمینان و سکون اور سرفرازی اور عمر کی درازی اُن کے لئے نہیں جو خدا سے دُور گمراہ و برگشتہ ہیں بلکہ اُن کے لئے جو اپنے گناہوں سے معافی پا کر خدا کے نزدیک ہو گئے ہیں۔ ہاں، یہ بھی سچ ہے کہ دُنیا میں اُن کے پاس بھی حکمت و دانش ہے جو اُسے نہیں جانتے، مگر یاد رکھیئے کہ خدا کے نزدیک یہ سَراسَر بے و وقوفی اور حماقت ہے۔ خدا کی حکمت کے مقابلہ میں دُنیا کی حکمت کچھ بھی نہیں۔ کیونکہ دُنیاوی عقل و سمجھ خدا سے نہیں بلکہ اُس کی خاکی تخلیق یعنی اِنسان کے گناہ میں گرنے کے سبب سے وجود میں آئی۔ اِسی لئے اَب یہ بُرائی اور گھمنڈ کی جڑ شیطان کے کنڑول میں ہے۔ جب دُنیا نے اپنی حکمت سے خدا کو نہ جانا تو خدا اپنی محبت و اِنصاف کا تقاضا پورا کرتے ہوئے شیطان پر غالب آیا اور اپنے بیٹے مسیح یسوع کے وسیلہ سے نجات پانے کا بیش قیمت موقع فراہم کِیا تاکہ ہم ہلاک کرنے والی دُنیاوی حکمت کو چھوڑ کر ابدی زندگی دینے والی اِلٰہی حکمت کے وارث ہوں۔ بائبل مُقدس میں لکھا ہے، ’’کہاں کا حکیم؟ کہاں کا فقیہ؟ کہاں کا اِس جہان کا بحث کرنے والا؟ کیا خدا نے دُنیا کی حکمت کو بے و قوفی نہیں ٹھہرایا؟ اِس لئے کہ جب خدا کی حکمت کے مطابق دُنیا نے اپنی حکمت سے خدا کو نہ جانا تو خدا کو یہ پسند آیا کہ اِس منادی کی بے و قوفی کے وسیلہ سے اِیمان لانے والوں کو نجات دے۔ ‘‘ (۱-کرنتھیوں ۱:۲۰-۲۱) لہذا ثابت ہُوا کہ دُنیا کی حکمت روپیہ پیسہ سے ہماری تجوریاں تو بھر سکتی ہے، عالیشان گھر اور قیمتی گاڑیاں تو دے سکتی ہے مگر ہمارے گناہ معاف کر کے نجات نہیں دے سکتی۔ ابدی خوشی و شادمانی، اِطمینان و آرام اور سرفرازی اور عمر کی درازی ہمیں صرف اُس ہستی کے وسیلہ سے مِل سکتی ہے جِسے خدا نے ہمارے لئے حکمت ٹھہرایا ہے یعنی مسیح یسوع۔ آئیے دیکھتے ہیں کہ بائبل مُقدس اِس بارے میں کیا کہتی ہے۔ ’’لیکن تم اُس کی طرف سے مسیح یسوع میں ہو جو ہمارے لئے خدا کی طرف سے حکمت ٹھہرا یعنی راستبازی اور پاکیزگی اور مخلصی۔‘‘ (۱-کرنتھیوں ۱:۳۰)

دُنیاوی حکمت سے ہمیں وقتی آرام، وقتی عزت، وقتی عیاشی تو ملتی ہے مگر راستبازی، پاکیزگی، مخلصی اور ہمیشہ کی زندگی نہیں، خدا نے اپنے بیٹے مسیح یسوع کو ہمارے لئے حکمت ٹھہرایا۔ کیونکہ ابدی آرام اور ابدی زندگی صرف اُسی کے پاس ہے۔

دوستو، بہنو اور بھائیو! آئیے آج خدائے قدُوس کے آگے گر کر اِلتجا کریں کہ ہمیں اپنے ہاں سے حکمت و فہم عطا کرے تاکہ ہم اچھے بُرے میں تمیز کر سکیں اور وہ کام کریں جو اُس کی نظر میں اچھا ہے۔ اَے میرے پاک خدا، مَیں ساری زندگی تجھ سے بھاگتا ہی رہا ہوں مگر تیری حضوری سے بھاگ کر کہاں جائوں۔ جہاں بھی جاتا ہوں تُو وہاں موجود ہے۔ ’’مَیں تیری رُوح سے بچ کر کہاں جائوں؟ یا تیری حضوری سے کدِھر بھاگوں؟ اگر آسمان پر چڑھ جائوں تو تُو وہاں ہے۔ اگر مَیں پاتال میں بستر بچھائوں تو دیکھ! تُو وہاں بھی ہے۔‘‘ (زبور ۱۳۹:۷-۸) اَے میرے پرور دگار، مَیں تیرا شکر کرتا ہوں کہ تُو میرے گناہوں کو حساب میں نہیں لایا ورنہ کب کا جل کے خاک ہو چُکا ہوتا بلکہ صبر و تحمل سے میرا اپنی طرف پلٹنے کا اِنتظار کرتا رہا کیونکہ تُو صبر کرنے والا خدا ہے۔

جی ہاں، خدا صبر کرنے والا خدا ہے، اور خدا کی یہی وہ خصُوصیت ہے جس کا ہم اپنے اگلے پروگرام میں ذِکر کریں گے، ضرور سُنئیے گا۔