Skip to content

خدا گناہگار سے پیار کرتا ہے

Posted in خُدا کی تلاش

محبت اور پیار ایک ایسا اِنسانی جذبہ ہے جو نہ صرف گہرا اور عمیق ہے بلکہ ایک نہایت خوبصورت اِظہار اور بے لوث احساس ہے۔ مگر جب ہم اِس خوبصورت جذبہ کو اپنی غرض یا مفاد کے لئے اِستعمال کرتے ہیں تو اِس پاکیزہ احساس کی خوبصورتی ماند پڑ جاتی ہے۔ مثال کے طور پر ہم جب کسی سے پیار کرتے ہیں تو اُسے پانے کے لئے اپنی جان تک دینے کو تیار ہو جاتے ہیں۔ کیوں؟ اِس لئے کہ ہم اُسے ٹوٹ کر چاہتے ہیں اور ہر قیمت پر اُسے پانا چاہتے ہیں خواہ کِتنے ہی رشتوں کو اپنی خود غرضی کی بھینٹ چڑھانا پڑے۔ اور اگر اپنے پیار کو نہ پایا تو اپنی جان دے دیں گے یا اُس کی جان لے لیں گے یا کسی اَور کے خون سے اپنے ہاتھ رنگ لیں گے۔ اگر یہ نہ کِیا تو کوئی ایسا اِنتقامی حربہ اِستعمال کریں گے جس سے ہمارے دِل کی وقتی طور پر تسکین ہو اور دوسرے کو نقصان پہنچے۔ یہ ہے دُنیاوی پیار کی ایک چھوٹی سی جھلک۔ مگر خدا کا پیار ہم اِنسانوں کے پیار سے بہت مختلف ہے۔ اُس میں نہ تو کوئی غرض شامل ہے اور نہ مفاد بلکہ خدا کی محبت میں فائدہ ہی فائدہ ہے۔ لیکن سوال یہ ہے کہ کیا خدا گناہگار اِنسان سے بھی پیار کرتا ہے؟ سب سے پہلے تو یہ جاننے کی ضرورت ہے کہ خدا کو گناہ سے اِتنی نفرت کیوں ہے؟ خدا کو گناہ سے اِس لئے نفرت ہے کہ گناہ اِنسان کو خدا سے دُور کر دیتا ہے، اور اِنسان گھمنڈی بن کر دُنیا کی عیش و عشرت میں کھو جاتا اور خدا کو بالکل بھول جاتا ہے۔ پاک کلام میں لکھا ہے، ’’کیونکہ تُو ایسا خدا نہیں جو شرارت سے خوش ہو۔ بدی تیرے ساتھ نہیں رہ سکتی۔ گھمنڈی تیرے حضور کھڑے نہ ہوں گے۔ تجھے سب بدکرداروں سے نفرت ہے۔ تُو اُن کو جو جھوٹ بولتے ہیں ہلاک کرے گا۔‘‘ (زبور ۵:۴-۶) خدا کو گناہ سے اِس لئے نفرت ہے کہ گناہ اِنسان کو سچائی سے دُور اور اندھا کر دیتا ہے۔ اور ہمارے اندر بغاوت کا بیج بُو کر ہمیں آزادی سے غلامی میں دھکیل دیتا ہے۔ لکھا ہے۔ ’’اِس بات کو یاد رکھ اور کبھی نہ بھول کہ تُو نے خداوند اپنے خدا کو بیابان میں کِس کِس طرح غصہ دِلایا بلکہ جب سے تم مُلکِ مِصر سے نکلے ہو تب سے اِس جگہ پہنچنے تک تم برابر خداوند سے بغاوت ہی کرتے رہے۔‘‘ (استثنا ۹:۷) جیسے کہ آپ جانتے ہیں کہ بغاوت کا بیج بُونے والا ابلیس یعنی شیطان ہے، یہ شیطان ہی تھا جس نے باغِ عدن میں بنی نوع اِنسان کی زندگی میں گناہ کا بیج بُویا۔ جہاں اُس نے آدم و حَوا کو گناہ کی آزمائش میں پھنسایا۔ اور وہ پھل کھلایا جس کو کھانے کے لئے خدا نے منع کِیا تھا مگر شیطان نے اُنہیں بہکایا کہ ’’…جس دِن تم اُسے کھائو گے تمہاری آنکھیں کھل جائیں گی اور تم خدا کی مانند نیک و بد کے جاننے والے بن جائو گے۔‘‘ (پیدایش۳:۵) یہ وجہ ہے کہ خدا کو گناہ سے نفرت ہے۔ گناہ ہمیں خدا سے دُور کر دیتا ہے اور ہماری اُس سے رفاقت ختم ہو جاتی ہے جس کے سبب سے جب ہم اُس کے حضور دُعا میں ہاتھ پھیلاتے ہیں تو وہ ہماری نہیں سُنتا۔ پاک کلام میں لکھا ہے، ’’ہم جانتے ہیں کہ خدا گناہگاروں کی نہیں سُنتا، لیکن اگر کوئی خدا پرست ہو اور اُس کی مرضی پر چلے تو وہ اُس کی سُنتا ہے۔‘‘ (یوحنا ۹:۳۱) ایک اَور مقام پر خداوند خدا کہتا ہے، ’’جب تم اپنے ہاتھ پھیلائو گے تو مَیں تم سے آنکھ پھیر لوں گا۔ ہاں جب تم دُعا پر دُعا کرو گے تو مَیں نہ سُنوں گا۔…‘‘ (یسعیاہ ۱:۱۵)

مگر جس طرح خدا نے آدم و حَوا کی حکم عدولی کے گناہ سے نفرت کی مگر اُن کے ننگے پن کو ڈھانپا حالانکہ وہ گناہگار تھے۔ اُسی طرح وہ ہماری نافرمانی کے گناہ سے بھی نفرت کرتا ہے، اور ہمیں بھی اپنے پیار و فضل سے ڈھانپنا چاہتا ہے۔ ہاں، اِس میں کوئی شک نہیں کہ خدا گناہگاروں سے نفرت کرتا ہے اور اُنہیں جہنم کی آگ میں ڈالے گا مگر آج ہم آپ کو ایک خوشخبری سُناتے ہیں کہ خدا گناہ سے تو نفرت کرتا مگر گناہگار سے پیار کرتا ہے۔ آپ نے کِتنے ہی سنگین گناہ کیوں نہ کِئے ہوں، چور، ڈاکو، قاتل، جھوٹے، رشوت خور یا زناکار ہوںبلکہ اُس کے وجود کا اِنکار کرنے والے مُلحد ہی کیوں نہ ہوں وہ پھر بھی آپ کو بغیر کسی شرط، غرض، مفاد، ملامت و الزام کے پیار کرتا ہے۔ خداوند خدا فرماتا ہے، ’’…اگرچہ تمہارے گناہ قرمزی ہوں وہ برف کی مانند سفید ہو جائیں گے اور ہر چند ارغوانی ہوں تو بھی اُون کی مانند اُجلے ہوں گے۔ اگر تم راضی اور فرمانبردار ہو تو زمین کے اچھے اچھے پھل کھائو گے، پر اگر تم اِنکار کرو اور باغی ہو تو تلوار کا لقمہ ہو جائو گے کیونکہ خداوند نے اپنے منہ سے یہ فرمایا ہے۔‘‘ (یسعیاہ ۱:۱۸-۲۰) بائبل مُقدس میں خدا کے رحم و کرم کی ایک خوبصورت جھلک ملاحظہ فرمائیے، ’’لیکن وہ رحیم ہو کر بدکاری معاف کرتا ہے اور ہلاک نہیں کرتا بلکہ بارہا اپنے قہر کو رُوک لیتا ہے اور اپنے پورے غضب کو بھڑکنے نہیں دیتا۔ اور اُسے یاد رہتا ہے کہ یہ محض بشر ہیں…‘‘ (زبور ۷۸:۳۸-۳۹) پاک خدا اُس وقت تک گناہگار اِنسان سے پیار کا رشتہ بحال نہیں کرتا جب تک وہ اِلٰہی منصوبہ اور اِرادہ کے مطابق اپنے گناہوں سے توبہ کر کے معافی نہیں پا لیتا۔ یہ ایسا ہی ہے کہ آپ کا بچہ نافرمانی کرے اور وہ کام کرے جس کو آپ نے منع کِیا ہے تو آپ اپنے بچے سے نفرت نہیں کریں گے ہاں، اُس حرکت سے نفرت کریں گے جو اُس نے کی ہے۔ اور جب اُسے اپنے قصور کا احساس ہو جاتا ہے اور شرمندگی و ندامت محسوس کرتا ہے اور معافی مانگتا ہے تو آپ اُسے معاف کر دیتے اور پیار کرتے ہیں۔ اِس لئے کہ اُس نے اپنی نافرمانی کے گناہ کو توبہ کر کے مِٹا دیا۔ اور اگر وہ مسلسل گناہ کرتا رہے تو آپ اپنے بچے سے مانگنے سُننے کا حق واپس لے لیں گے مگر پیار میں پھر بھی کمی نہیں آئے گی اور نظم و ضبط کا سلسلہ جاری رہے گا۔ نظم و ضبط پیار ہی کا حصہ ہے۔ پیار کے برعکس نفرت نہیں بلکہ لاپرواہی اور نافرمانی ہے یعنی مَیں وہ کروں گا جو مَیں چاہوں گا۔ اِسی لاپرواہی، سَر کشی اور نافرمانی کا نام گناہ ہے۔ ہمارا آسمانی باپ بھی گناہ سَر زد ہونے کی صورت میں کوشش کرتا ہے کہ ہم ندامت محسوس کر کے توبہ کریں اور جُدائی کی دیوار کو گرا کر اپنا رشتہ پھرسے بحال کریں۔

لیکن بحالی و معافی کے اِس سفر کے کچھ ضابطے اور قاعدے ہیں۔ کیونکہ خدا پاک و راستباز خدا ہے لہذا وہ چاہتا ہے کہ اُس کے پیروکار بھی پاک و راستباز ہوں ورنہ اُس کی مُقدس حضوری میں داخل نہیں ہو سکتے۔ پاک کلام میں یوں لکھا ہے، ’’پھر خداوند نے موسیٰ سے کہا، بنی اِسرائیل کی ساری جماعت سے کہہ کہ تم پاک رہو کیونکہ مَیں جو خداوند تمہارا خدا ہوں پاک ہوں۔‘‘ (احبار ۱۹:۱-۲) اور کتنی خوشی کی بات ہے کہ خدا نے ہمیں پاک کرنے اور ہمارا ننگا پن ڈھانپنے کا اِنتظام بھی خود ہی کِیا تاکہ اُس کی الوہیت و پاکیزگی اور عدل و اِنصاف کا تقاضا پورا ہو جائے۔ خدا کے بیٹے مسیح یسوع کی صلیب پر قربانی وہ مقام ہے جہاں اُس کی راستبازی اور عدل مِل کر ہمارے گناہوں کی بھاری قیمت ادا کرتے ہیں۔ صلیب کی خوبی یہی ہے کہ وہاں ہمیں خدا کے غیظ و غضب کی اِنتہا اور اُس کے لازوال پیار کا عروج دونوں ایک ہی وقت میں ایک ہی جگہ مسیح یسوع نجات دہندے کی صورت میں نظر آتے ہیں۔

خدا پہلے سے جانتا تھا گناہ ہی کی طرف ہماری رغبت ہو گی مگر اُس کی نظر ہماری کمزوریوں اور قصوروں پر نہیں بلکہ توبہ کی ضرورت پر ہے۔ اُس نے اپنے بیٹے مسیح کو ہمارے گناہوں کی خاطر صلیب پر قربان کِیا تاکہ اُس کے خون سے دُھل کر ہم زندگی پائیں۔ جیسا کہ پاک کلام میں لکھا ہے، ’’کیونکہ تم جانتے ہو کہ تمہارا نکما چال چلن جو باپ دادا سے چلا آتا تھا اُس سے تمہاری خلاصی فانی چیزوں یعنی سونے چاندی کے ذریعہ سے نہیں ہوئی بلکہ ایک بے عیب اور بے داغ برے یعنی مسیح کے بیش قیمت خون سے۔‘‘ (۱-پطرس ۱:۱۸-۱۹)

اور اَب سوال یہ ہے کہ کیا مسیح کا پیروکار بننے کے بعد ہم سے گناہ سَر زد نہیں ہو گا؟ خدا کے زندہ اِلہامی کلام میں لکھا ہے، ’’اگر ہم کہیں ہم بے گناہ ہیں تو اپنے آپ کو فریب دیتے ہیں اور ہم میں سچائی نہیں۔ اگر اپنے گناہوں کا اِقرار کریں تو وہ ہمارے گناہوں کے معاف کرنے اور ہمیں ساری ناراستی سے پاک کرنے میں سچا اور عادل ہے۔ اگر کہیں کہ ہم نے گناہ نہیں کِیا تو اُسے جھوٹا ٹھہراتے ہیں اور اُس کا کلام ہم میں نہیں ہے۔‘‘ (۱-یوحنا ۱:۸-۱۰)

ایک اَور مقام پر لکھا ہے، ’’…تم گناہ نہ کرو اور اگر کوئی گناہ کرے تو باپ کے پاس ہمارا ایک مددگار موجود ہے یعنی یسوع مسیح راستباز۔ اور وہی ہمارے گناہوں کا کفارہ ہے اور نہ صرف ہمارے ہی گناہوں کا بلکہ تمام دُنیا کے گناہوں کا بھی۔‘‘ (۱-یوحنا ۲:۱-۲)

جب کوئی مسیح کا پیروکار گناہ کرتا ہے تو اُس کی خدا کے ساتھ رفاقت ٹوٹ جاتی ہے اور اِس کا اثر ہماری دُعائوں پر پڑتا ہے مگر کیونکہ وہ ہم سے پیار کرتا ہے اِس لئے ہمیں اپنے کلام کے وسیلہ نصیحت و تنبیہ کرتا ہے یا ایسے حالات پیدا کرتا ہے کہ ہمیں اپنے گناہ کا احساس ہو۔ اِسی لئے مسیحیوں کے لے لازم ہے کہ وہ ہر روز بِلاناغہ اپنے گناہوں کا اِقرار کریں اور معافی مانگتے رہیں۔ گناہ کرنے سے ہماری رفاقت خدا سے ٹوٹ جاتی ہے مگر بحیثیت آسمانی باپ کے ہمارا رشتہ اُس سے کبھی بھی نہیں ٹوٹتا۔ بالکل ویسے جب آپ کا بچہ نافرمانی کرتا ہے تو ہم اُس وقت تک ناراض رہتے ہیں جب تک کہ وہ اپنے قصور کو مان کر توبہ نہیں کر لیتا۔ اور آپ کا تعلق اپنے بچے پھر سے بحال ہو جاتا ہے۔

اَب فیصلہ آپ کا ہے کہ آپ خدا کی فرمانبرداری کر کے آسمان پر ہمیشہ کی زندگی پانا چاہتے ہیں یا باغی ہو کر ابدی ہلاکت؟ یاد رکھیئے کہ خدا ہماری ہلاکت نہیں چاہتا اور نہ ہی اُس کو اِس بات سے غرض ہے کہ ہم کتنے بڑے گناہگار ہیں۔ اگر خدا کا مقصد پہلے دِن سے ہی گناہگاروں کو سزا دینا ہوتا تو وہ اپنے نبی پیغمبروں کو دُنیا میں کیوں بھیجتا اور اپنے بیٹے مسیح یسوع کو صلیب پر کیوں قربان کرتا۔

دوستو، بہنو اور بھائیو! اگر آپ گناہگار ہیں اور کسی طرف نجات کی کوئی اُمید نظر نہیں آتی اور اِسی ندامت، شرمندگی اور نااُمیدی کے سبب ڈیپریشن یعنی ذہنی دبائو کا شکار ہیں تو آئیے، خدا کے بے عیب اور بے داغ برے یعنی مسیح یسوع کے بیش قیمت خون سے معافی پا کر ابدی اطمینان و آرام پائیں۔

آئیے، اپنے آسمانی باپ کی حمد و تمجید کریں کہ اُس نے ہمارے گناہوں کے مُوافق ہم سے سلوک نہیں کِیا کیونکہ ہمارا خدا معاف کرنے والا خدا ہے، اور یہی وہ خصوصیت ہے جس کا ہم اپنے اگلے پروگرام میں ذِکر کریں گے، ضرور سُنئیے گا۔