Skip to content

خدا گناہ سے نفرت کرتا ہے

Posted in خُدا کی تلاش

گناہ کیا ہے؟ گناہ ایک ایسا ناسُور ہے جو دھیرے دھیرے سارے بدن کو زہر آلودہ بنا کر موت کے گھاٹ اُتار دیتا ہے۔ یہ وہ اذیت ناک موت ہے جو اِنسان اپنے لئے خود چُنتا ہے یعنی اُسے خوب پتہ ہے کہ گناہ کا راستہ ہلاکت کا راستہ ہے مگر وہ پھر بھی جان بوجھ کر تباہی و بربادی کی طرف لپکتا چلا جاتا ہے۔ گناہ شیطان کا ایک ایسا مُہلک ہتھیار ہے جس کا نشانہ بننے کے لئے ہم خود کو پیش کر دیتے ہیں۔ اِسی لئے نہ تو شیطان کا یہ ہتھیار کم ہوتا ہے اور نہ ہماری نشانہ بننے کی خواہش کم ہوتی ہے۔ آج جدِھر دیکھئے ہر اِنسان سَر سے پائوں تک گناہوں کی دلدل میں پھنسا ہُوا ہے۔ کیونکہ گناہ کا اپنا ایک مزہ ہے اِسی لئے ہم گناہ کرنے کے مختلف حیلے بہانے، عذر اور موقعہ تلاش کرتے رہتے ہیں۔ ہم اِنسانوں کے نزدیک گناہ کی ممکن ہے کئی وضاحتیں اور تشریحات ہوں مگر بائبل مُقدس کے مطابق گناہ کی صرف ایک ہی وضاحت، ایک ہی تشریح ہے، ’’جو کوئی گناہ کرتا ہے وہ شرع (یعنی خدا کے احکامات) کی مخالفت کرتا ہے اور گناہ شرع کی مخالفت ہی ہے۔‘‘ (۱-یوحنا ۳:۴)

خدا کی مرضی و خواہش اور قوانین و عقائد کے خلاف چلنا گناہ ہے۔ گناہ محض کوتاہی، کمزوری یا اخلاقی پستی کا نام نہیں بلکہ خدا کے خلاف کھلم کھلا بغاوت اور نافرمانبرداری گناہ ہے۔ اگر خدا یہ حکم دیتا ہے کہ جھوٹ نہیں بولنا اور ہم جھوٹ بولتے ہیں تو ہم نے اُس کے قانون و شرع کو توڑا ہے اور اُس کے خلاف گناہ کِیا ہے۔ گناہ کرنے سے خدا ناراض ہوتا ہے کیونکہ گناہ اُس کی طبیعت و فطرت میں ہے ہی نہیں۔ پاک کلام میں لکھا ہے، خدا ’’… جھوٹ نہیں بول سکتا۔‘‘ (ططُس ۱:۲) اِسی طرح چوری کرنا گناہ ہے کیونکہ خدا چوری نہیں کرتا۔ یہ سارے کام خدا کی پاک ذات کی مخالفت ہیں۔

اِس کے علاوہ ایک اَور طرح کا گناہ بھی ہے کہ اگر ہم بھلائی کرنا جانتے ہیں اور بھلائی نہیں کرتے تو یہ بھی گناہ ہے۔ جیسا کہ بائبل مُقدس میں لکھا ہے، ’’پس جو کوئی بھلائی کرنا جانتا ہے اور نہیں کرتا اُس کے لئے یہ گناہ ہے۔‘‘ (یعقوب ۴:۱۷)

کیونکہ خدا پاک و راست ہے لہذا ہم گناہ کے مفہوم کو خدا کی پاکیزگی کی روشنی میں دیکھ کر ہی سمجھ سکتے ہیں۔ کلام مُقدس میں خدا فرماتا ہے، ’’… پاک ہو اِس لئے کہ مَیں پاک ہوں۔‘‘ (۱-پطرس ۱:۱۶) خدا نے اپنے کامل اور پاک اخلاقی معیار کو بنی نوع اِنسان پر اپنے قانون و احکام سے ظاہر کِیا ہے۔ بائبل مُقدس میں خدا کے احکامات ایک کامل اخلاقی معیار ہیں اور اِن کی خلاف ورزی گناہ ہے۔ جس کا نتیجہ خدا کی ناراضگی اور پھر عدالت و سزا ہے۔ کوئی بھی قانون سزا کے بغیر نہیں ہوتا۔ ریاست کے قانون توڑنے کی سزا جیل اور گھر والوں سے دُوری ہے۔ اور خدا کے قانون توڑنے کی سزا گناہ کی قید اور خدا سے دُوری و جُدائی ہے۔ جیسا کہ خدا کے پاک اِلہامی کلام میں لکھا ہے، ’’دیکھو خداوند کا ہاتھ چھوٹا نہیں ہو گیا کہ بچا نہ سکے اور اُس کا کان بھاری نہیں کہ سُن نہ سکے بلکہ تمہاری بد کرداری نے تمہارے اور تمہارے خدا کے درمیان جُدائی کر دی ہے اور تمہارے گناہوں نے اُسے تم سے رُوپوش کِیا ایسا کہ وہ نہیں سُنتا۔ کیونکہ تمہارے ہاتھ خون سے اور تمہاری انگلیاں بد کرداری سے آلودہ ہیں۔ تمہارے لب جھوٹ بولتے اور تمہاری زبان شرارت کی باتیں بکتی ہے۔‘‘ (یسعیاہ ۵۹:۱-۳) ایک اَور مقام پر گناہ کے نتائج بارے لکھا ہے، ’’…گناہ کی مزدوری موت ہے…‘‘ (رومیوں ۶:۲۳)

اب سوال یہ ہے کہ گناہ کیسے دُنیا میں آیا۔ یہ ساری گڑبڑ دُنیا کی تخلیق کے وقت ہُوئی جب آدم نے خدا کے حکم کی نافرمانی کرتے ہوئے باغِ عدن میں گناہ کا بیج بُویا۔ اُسی ایک گناہ کے سبب سے آدم کی طبیعت و فطرت ہمیں وراثت میں ملی ہے۔ اِسی لئے پاک کلام میں لکھا ہے، ’’پس جس طرح ایک آدمی کے سبب سے گناہ دُنیا میں آیا اور گناہ کے سبب سے موت آئی اور یوں سب آدمیوں میں پھیل گئی اِس لئے کہ سب نے گناہ کِیا۔‘‘ (رومیوں ۵:۱۲)

اگر ہم سب گناہگار ہیں تو یقیناً خدا سے دُور ہیں اور خدا کے غضب کے تحت ہیں۔ جیسا کہ خدا کے اِلہامی کلام میں لکھا ہے، ’’…ہم بھی سب کے سب پہلے اپنے جسم کی خواہشوں میں زندگی گذارتے اور جسم اور عقل کے اِرادے پورے کرتے تھے اور دوسروں کی مانند طبعی طور پر غضب کے فرزند تھے۔‘‘ (افسیوں ۲:۳) مگر کیونکہ خدا محبت کرنے والا رحم دِل و عادل خدا ہے وہ اپنی تخلیق کو ہلاکت میں نہیں دیکھ سکتا۔

اَب ایک طرف خدا کی محبت و پاکیزگی اور عدل و اِنصاف ہے اور دوسری طرف خدا کی گناہ سے نفرت، تو کیسے ممکن ہے کہ وہ ہمارے اچھے اعمال، قربانیوں اور عبادتوں کو قبول کر کے، ہمارے گناہوں کی سزا نہ دے اور معاف کر دے۔ کیا یہ خدا کا آسمانی عدل ہے کہ کسی کی طرفداری کرتے ہوئے گناہوں کو دَر گزر کر دے اور کسی کو جہنم کی آگ میں پھینک دے؟

شائد کوئی پارسائی کے نشے میں ڈوب کر غرور و تکبر سے دعویٰ کرے کہ نہیں نہیں، میں تو بہت نیک و پارسا ہوں، مجھ سے تو کوئی گناہ سر زد نہیں ہُوا، تو یقیناً وہ جھوٹ بولتا ہے۔ کیونکہ مسیح یسوع کے علاوہ جو کوئی بھی اِس دُنیا میں آیا خواہ کوئی بھی کیوں نہ ہو گناہگار ہے۔ اِنجیلِ مُقدس میں لکھا ہے، ’’…سب نے گناہ کِیا اور خدا کے جلال سے محروم ہیں۔‘‘ (رومیوں ۳:۲۳)

تو اَب سوال یہ ہے کہ کیا بنی نوع اِنسان کے لئے توبہ کا کوئی راستہ ہے؟ کیا ہم خدا کی نفرت کو محبت میں بدل سکتے ہیں؟ کیا ہم اچھے کام اور رات دِن عبادتیں کر کے گناہوں سے معافی پا سکتےہیں؟ فرض کریں آج ہمیں ریاستی قوانین کو توڑنے کے سبب جیل کی سزا ہو جاتی ہے۔ تو ظاہر ہے کوئی اچھا اور نیک اِنسان ہی جج کے سامنے پیش ہو کر ہماری ضمانت دے سکتا ہے؟ اگر ہم چوری کے الزام میں پکڑے گئے ہیں تو ہماری ضمانت کے لئے جج کے سامنے کوئی چور تو پیش نہیں ہو گا کہ ہمیں چھڑائے، یا قتل کے جرم میں جیل چلے جائیں تو جج کسی قاتل کی ضمانت تو قبول نہیں کرے گا۔ جج ہمارے حق میں اُسی شخص کی ضمانت قبول کرے گا جس کا اپنا کردار معاشرے میں اچھا ہو گا۔ دُنیا کے مُنصف اور آسمان کے مُنصف میں زمین آسمان کا فرق ہے۔ خدا کی عدالت میں ہماری مخلصی و شفاعت صرف وہی کر سکتا ہے جو خود پاک و بے گناہ ہو۔ یاد رہے کہ گناہگار، گناہگار کا نہ تو فدیہ دے سکتا ہے اور نہ کفارہ۔ گناہگار کا فدیہ و کفارہ صرف اور صرف بے گناہ و پاک ہی دے سکتا ہے۔ تو کون ہے بے گناہ و پاک جو ہمارے گناہوں کا قرض چُکا سکتا ہے؟ بنی نوع اِنسان کے گناہوں کا کفارہ ادا کرنے کے لئے خدا نے اپنے بیٹے مسیح یسوع کو دُنیا میں بھیجا کہ وہ جو پاک و بے گناہ ہے ہم گناہگاروں کا نجات دہندہ ہو۔ اِلہامی کلام میں مسیح یسوع کی پاکیزگی اور عظیم قربانی بارے لکھا ہے، ’’جو گناہ سے واقف نہ تھا، اُسی کو اُس نے

(یعنی خدا نے) ہمارے واسطے گناہ ٹھہرایا تاکہ ہم اُس میں ہو کر خدا کی راستبازی ہو جائیں۔‘‘ (۲-کرنتھیوں ۵:۲۱) پھر لکھا ہے، ’’کیونکہ تم کو اِیمان کے وسیلہ سے فضل ہی سے نجات مِلی ہے اور یہ تمہاری طرف سے نہیں، خدا کی بخشش ہے۔ اور نہ اعمال کے سبب سے ہے تاکہ کوئی فخر نہ کرے۔‘‘ (افسیوں ۲:۸-۹)

خدا کے پاک کلام میں مسیح کے بارے میں لکھا ہے، ’’وہ آپ ہمارے گناہوں کو اپنے بدن پر لئے ہوئے صلیب پر چڑھ گیا تاکہ ہم گناہوں کے اعتبار سے مَر کر راستبازی کے اعتبار سے جِئیں اور اُسی کے مار کھانے سے تم نے شفا پائی۔‘‘ (۱-پطرس ۲:۲۴) ایک اَور مقام پر یوں قلمبند ہے، ’’لیکن خدا اپنی محبت کی خوبی ہم پر یوں ظاہر کرتا ہے کہ جب ہم گناہگار ہی تھے تو مسیح ہماری خاطر مُواٴ۔ پس جب ہم اُس کے خون کے باعث اَب راستباز ٹھہرے تو اُس کے وسیلہ سے غضبِ اِلٰہی سے ضرور ہی بچیں گے۔‘‘ (رومیوں ۵:۸-۹) خدا کے اِلہامی کلام میں لکھا ہے، ’’…گناہ کی مزدوری موت ہے مگر خدا کی بخشش ہمارے خداوند یسوع مسیح میں ہمیشہ کی زندگی ہے۔‘‘ (رومیوں ۶:۲۳) خداوند یسوع مسیح نے اپنے بارے میں خود فرمایا، ’’…راہ اور حق اور زندگی مَیں ہوں۔ کوئی میرے وسیلہ کے بغیر باپ (یعنی خدا) کے پاس نہیں آتا۔‘‘ (یوحنا ۱۴:۶)

مسیح کی صلیب پر ہمارے گناہوں کی خاطر عظیم قربانی کا مطلب یہ ہے کہ اب ہمیں بار بار جانوروں کا خون بہانے کی قطعی ضرورت نہیں، جیسا کہ پاک کلام میں لکھا ہے، ’’…ہم یسوع مسیح کے جسم کے ایک ہی بار قربان ہونے کے وسیلہ سے پاک کِئے گئے ہیں۔‘‘ (عبرانیوں ۱۰:۱۰) اگر ہم مسیح یسوع کی موت کو قبول کرتے ہیں تو گناہوں سے نجات کا وعدہ خدا کی طرف سے گارنٹی کے ساتھ ہے۔ لکھا ہے، ’’مگر کتابِ مُقدس نے سب کو گناہ کا ماتحت کر دیا تاکہ وہ وعدہ جو یسوع مسیح پر اِیمان لانے پر موقوف ہے اِیمانداروں کے حق میں پورا کِیا جائے۔‘‘ (گلتیوں۳:۲۲) پاک کلام میں مسیح یسوع کے حق میں لکھا ہے، ’’اِس لئے کہ مسیح نے بھی یعنی راستباز نے ناراستوں کے لئیے گناہوں کے باعث ایک بار دُکھ اُٹھایا تاکہ ہم کو خدا کے پاس پہنچائے۔ وہ جسم کے اعتبار سے تو مارا گیا لیکن رُوح کے اعتبار سے زندہ کِیا گیا۔‘‘ (۱-پطرس ۳:۱۸)

ہم نے دیکھا کہ گناہ وہ منحوس دیوار ہے جس نے ہمیں اپنے تخلیق کار سے پوشیدہ کر دیا ہے۔ اور دُکھ کی بات یہ ہے کہ جب تک ہماری زندگیوں میں گناہ رہے گا، خدا کی نفرت اور جُدائی کی دیوار بھی قائم رہے گی۔ مگر خوشی کی بات یہ ہے کہ مسیح یسوع کو اپنا نجات دہندہ قبول کر کے ہم گناہوں کی منحوس دیوار ہمیشہ کے لئے گِرا سکتے ہیں۔ آئیے خدا کی نفرت کو محبت میں بدل دیں۔ آپ کسی بھی ذات، عقیدے اور دین سے کیوں نہ ہوں، بلکہ خواہ آپ مُلحد و دہریے ہی کیوں نہ ہوں، دُنیا کا نجات دہندہ آپ کو گناہوں سے نجات دینے اور خدا کے ساتھ محبت و پیار کا رشتہ جوڑنے کے لئے تیار کھڑا ہے۔

ہاں، یہ سچ ہے کہ خدا گناہ سے نفرت کرتا ہے مگر یہ بھی سچ ہے کہ خدا گناہگاروں سے پیار کرتا ہے، اور خدا کی یہی وہ خصوصیت ہے جس پر ہم اپنے اگلے پروگرام میں غور کریں گے، سُننا مت بھولئیے گا۔