افریقہ میں پایا جانے والا کالا گینڈا نہ صرف دیکھنے میں آرمی کا تیز رفتار ٹینک لگتا ہے بلکہ اکثر وہ اُس کی طرح کام بھی کرتا ہے۔ اُس کا بھاری اور ٹھوس بدن انتہائی سخت قِسم کی جِلد سے ڈھکا ہوتا ہے جس پر لوہے کی چادر کا ساگماں ہوتا ہے۔ اور ہاں، وہ بڑے سینگوں سے بھی مسلح ہے جن میں سب سے بڑا ۴ فٹ تک لمبا ہوتا ہے۔ اِس بڑے سینگ کی مدد سے کالا گینڈا رستے میں آنے والے بڑے سے بڑے حریف بلکہ ریل کے انجن پر بھی حملہ کر دیتا ہے۔ گینڈا پنے بھاری اور بے ڈھنگے بدن کے باوجود حیرت انگیز طور پر تیزی اور مستعدی رکھتا ہے، وہ 30 میل فی گھنٹہ کی رفتار سے دوڑ کر حملہ کر سکتا ہے۔ لیکن اگر اُس کا نشانہ چُوک جائے تو بھی وہ اُسی دَم گھوم کر دوبارہ حملہ کی صلاحیت رکھتا ہے۔ وہ ٹیڑھی تِرچھی جگہوں پر بھی آسانی سے چڑھ سکتا ہے۔
گینڈے کی بے پناہ قوت کے ساتھ ایک مُشکل اُس کی فوراً جنگ کے لئے تیار ہو جانے کی جبلی خواہش ہے، وہ ہر اُس چیز پر حملہ کر دیتا ہے جس سے اُس کی خطرہ محسوس ہوتا ہے۔ کہتے ہیں کہ وہ حملہ پہلے کرتا ہے اور سوال بعد میں پوچھتا ہے۔ گینڈے کے بارے میں مشہور ہے کہ وہ اُن امن پسند ہرنوں پر بھی حملہ کر دیتا ہے جو اپنی دُھن میں مگن گھاس چَر رہے ہوتے ہیں۔ اُن کے بارے میں یہ بھی عام ہے کہ وہ اُن جھاڑیوں اور درختوں پر بھی ہلہ بول دیتے ہیں جن پر اُن کی نظر پڑ جاتی ہے۔ کینیا میں ایک باہمت نگران نے گہرے کیچڑ میں پھنسے ہوئے ایک گینڈے کو موت کے منہ سے بچا لیا مگر اِس کی ناشکری دیکھئے کہ باہر نکلنے کے فوراً بعد اُس نے اپنے محسن کی گاڑی پر حملہ کر دیا۔
لیکن گینڈے کے اِسقدر جنگجو ہونے کی ایک وجہ ہے۔ اگر گینڈا اِنسان ہوتا تو اُس کی نظر کی کمزوری کے باعث اُسے اندھا قرار دے دیا جاتا۔ وہ اُس وقت حیرت زدہ ہوتا ہے جب عجیب و غریب قِسم کی چیزیں اُس کی کم نظری یعنی کم فاصلے سے دیکھنے کی قوت میں مداخلت کرتی ہیں۔ ایسی حالت میں اُس کا جبلی ردِ عمل اِن چیزوں کے بارے میں یہ ہوتا ہے کہ بغیر جھجک کے حملہ کر دے۔ یقینا اگر اُس کی دیکھنے کی قوت بہتر ہوتی تو وہ اُن چیزوں کے بارے میں امن پسند ہوتا جن سے اُسے کوئی خطرہ نہیں۔
افریقہ میں گینڈے کے بارے میں ایک اَور عجیب و غریب بات یہ کہ باقی جنگلی جانوروں کے مقابلے میں اِسے بہت جلد پالتو بنایا جا سکتا ہے۔ جب ایک بار گینڈے کو قیدی بنا لیا جائے اور اُسے اِتنا وقت دیا جائے کہ وہ اپنے ماحول سے بخوبی آشنا ہو جائے تو وہ اِسقدر حلیم اور مسکین ہو جاتا ہے کہ اپنے نگران کے ہاتھ سے کھانا شروع کر دیتا ہے۔ جن گینڈوں کو قیدی بنا لیا جاتا ہے، وہ اپنے کانوں پر مالش کروانا بہت پسند کرتے ہیں، اور کچھ ایسے ہیں کو سکھایا جاتا ہے کہ وہ اپنی پشت کے بل لڑھکنی کھائیں تاکہ اپنا پیٹ کھرچ سکیں۔
یہ انوکھی تبدیلی ثابت کرتی ہے کہ گینڈے کی چیزوں سے ناآشنائی سب سے زیادہ ذمہ دار ہے کہ وہ اِسقدر جنگجو ہے۔ لیکن یہ حقیقت ہے کہ گینڈے کا قدرتی طور پر سوائے اِنسان کے اَور کوئی دُشمن نہیں۔ یہی ایک دُشمن ہے جو اُن کی نسل کو ختم کرنے کے لئے کافی ہے۔ بہت سے ایشیائی باشندے یقین رکھتے ہیں کہ گینڈے کے سینگوں سے حاصل ہونے والا پائوڈر مَردوں کی جنسی طاقت بڑھانے کے لئے نہائت مفید ہے۔ مثال کے طور پر 1965 میں ایشیائی گینڈے کا ایک کِلو سینگ 1125 ڈالر میں بیچا گیا۔ یہی وجہ ہے کہ گینڈے کے سینگوں کی ناجائز تجارت عروج پر ہے اور اِس طرح چوری سے شکار کرنے والے بڑی تیزی سے گینڈوں کو نیست و نابود کر رہے ہیں۔
گینڈے کا سینگ واقعی ایک انوکھی چیز ہے، اگرچہ کبھی بھی ثابت نہیں ہو سکا کہ اِس میں جنسی طاقت بڑھانے کی صلاحیت ہے یا نہیں۔ دوسرے جانوروں کے مقابلے میں گینڈے کا سینگ سخت ترین بالوں سے بنا ہے۔ گینڈے کی بہت سی ایک قِسمیں ہیں جن کے بدن پر بہت کم بال ہوتے ہیں، اِن سب کا مرکز سینگ ہی ہے۔ یہ بھی انوکھی بات ہے کہ سینکڑوں الگ تھلگ اُگے ہوئے بال ایک دوسرے سے سختی کے ساتھ اِس طرح جڑے ہوتے ہیں کہ اکٹھے مِل کر لوہے اور فولاد پر بھی فتح پا سکتے ہیں۔ مگر سوال یہ ہے کہ گینڈے کا سینگ کِس طرح نشوو نُما پاتا ہے؟ کیا شروع کے دِنوں میں گینڈے کے بالوں نے فیصلہ کِیا کہ اِس کے بہتر طور کام اُسی صورت میں آ سکیں گے کہ وہ ڈھیر کی شکل میں سینگ ترتیب دیں؟ مگر پھر یہ سوال اُبھرتا ہے کہ یہ سب کچھ کِس طرح ترتیب دیا جا سکتا ہے؟ تو اِس کا جواب یہ ہے کہ ایسا کبھی بھی ترتیب نہیں دیا جا سکا۔ ایسا ناممکن ہے کہ ایک عام جسم کے بال ہزاروں کی سال کی مدت میں مِلی میٹر سے مِلی میٹر ایک جگہ سے دوسری جگہ مُنتقل ہو سکیں اور پھر ایک دوسرے کے ساتھ سختی سے اِس طرح چِپک جائیں کہ گینڈے کا سینگ بن جائے۔
جب تک بالوں کی اچھی خاصی تعداد ٹھوس و سخت نہ ہو جائے، سینگ بالکل بے کار ہیں۔ اُنہیں کسی نہ کسی طرح اِس قابل ہونا ہے کہ وہ تہہ در تہہ اکٹھے ہوں۔ یقینا اِس دوران اُن کی ہزاروں نسلیں اپنا دفاع کرنے کے قابل نہ رہتی۔ لیکن اگر وہ بغیر سینگ یا سینگوں کے کامیاب ہوتے تو اُن کے سینگوں کے بڑھنے کی قطعی کوئی ضرورت نہ ہوتی۔ بجائے اِس کے گینڈے کے بالکل ویسے ہی سینگ تھے جیسے آج ہیں۔
سینگ گینڈے کی زندگی کا ایک بُنیادی حصہ ہیں اور اُس کے تمام عناصر مثلاً لوہے کی چادر جیسی کھال، کمزرو بینائی، جلد طیش میں آنے کی عادت اور بھاری بھر کم بدن، اِن سب کو تخلیق کار نے بڑی حکمت و دانشمندی سے اکٹھا کر دیا ہے۔ مگر یہ تخلیق کار کون ہے؟ یہ خدائے بزرگ و برتر ہے۔ جیسا بائبل مقدس میں لکھا ہے، ’’جس خدا نے دُنیا اور اُس کی سب چیزوں کو پیدا کِیا… وہ تو خود سب کو زندگی اور سانس اور سب کچھ دیتا ہے۔‘‘ (اعمال ۱۷:۲۵-۲۴) یہ خدا ہی ہے جو بائبل مقدس کے مطابق شیروں کو خوراک مہیا کرتا ہے، جیسا کہ لکھا ہے، ’’جوان شیر اپنے شکار کی تلاش میں گرجتے ہیں اور خدا سے اپنی خوراک مانگتے ہیں۔‘‘ (زبور ۱۰۴:۲۱) اِسی خدا نے جیسا کہ بائبل مقدس میں لکھا ہے کہ ہمیں بنایا، ’’جان رکھو کہ خداوند ہی خدا ہے۔ اُسی نے ہم کو بنایا اور ہم اُسی کے ہیں۔‘‘ (زبور ۱۰۰:۳)
اگرچہ اُس کی تخلیق ہماری آنکھوں میں انوکھی اور عجیب ہے، لیکن وہ تخلیق کار سے کہیں بڑھ کر ہے۔ وہ ساری دُنیا کا مُنصف بھی ہے اور ہمیں باپ کی طرح پیار بھی کرتا ہے۔ جیسا کہ بائبل مقدس میں لکھا ہے، ’’جیسے باپ اپنے بیٹوں پر ترس کھاتا ہے ویسے ہی خداوند اُن پر جو اُس سے ڈرتے ہیں ترس کھاتا ہے کیونکہ وہ ہماری سرشت سے واقف ہے۔ اُسے یاد ہے کہ ہم خاک ہیں۔ … لیکن خداوند کی شفقت اُس سے ڈرنے والوں پر ازل سے ابد تک اور اُس کی صداقت نسل در نسل ہے۔‘‘ (زبور ۱۰۳:۱۴-۱۳،۱۷)
آئیے، کائنات کے ذرے ذرے سے جو قدم قدم پر وجودِ الٰہی کا زندہ ثبوت پیش کر رہے ہیں، کچھ سیکھنے اور جاننے کی کوشش کریں تاکہ خوشی و کامرانی سے اپنے تخلیق کار کی حمد و ستائش گا سکیں۔
گینڈا
Posted in وجُودِ اِلٰہی