اُو یہ عمدہ اور خوشنما گھاس۔ ہم اِس کے بغیر دُنیا میں کیا کرتے؟ گھاس کی مختلف اَقسام آسانی سے پودوں کی دُنیا میں ایک شاہانہ مقام حاصل کر سکتی ہیں۔ گھاس بنی نوع اِنسان کے لئے زمین کے تمام پودوں سے زیادہ مفید اور کارآمد ہے۔
گندم، جس سے روٹی بنائی جاتی ہے، جو ہماری زندگی کو برقرار رکھنے کے لئے نہائت ضروری ہے، دراصل گھاس ہی ہے۔ چاول، جس سے دُنیا کی کافی سے زیادہ آبادی اپنا پیٹ بھرتی ہے، گھاس ہی ہے۔ مکئی، جس سے دُنیا کی بیشتر آبادی اپنی بھوک مِٹاتی ہے، گھاس ہی ہے۔ جَو، جوار، باجرہ اور کئی دوسری قِسم کے اناج کے بارے میں بھی سوچیئے جو ہماری روزمرہ خوراک کا ایک حِصہ ہیں، سب گھاس ہی ہے۔ ان سب کے بغیر اِنسانی زندگی کا اِنحصار محض محدود پیمانے پر ہوتا۔
گھاس اور اُس کے بیج کے بغیر چرنے والے جانوروں کا کہیں نام و نشان تک نہ ہوتا۔ ذرا سوچیئے! کہ گھوڑوں اور گائے بھینسوں کے بغیر اِنسان کو نہ صرف پیدل چلنا پڑتا بلکہ اپنا بوجھ بھی خود پشت پر اُٹھانا پڑتا۔ اناج کے بغیر شہروں میں لوگوں کی اِتنی بھرمار نہ ہوتی کیونکہ شہروں میں ضروری ہے کہ زیادہ مقدار میں خوراک محفوظ ہو اور اناج کافی حد تک یہ ضرورت پوری کر دیتا ہے۔ یقینی بات ہے کہ دُنیا صرف کھیتی باڑی اور زراعت تک ہی محدود رہتی، صرف چند چھوٹے چھوٹے کھیت اور گائوں ہی نظر آتے۔ بھوک اِنسان کے ذہن اور پیٹ سے کبھی بھی دُور نہ ہوتی کیونکہ صرف اناج ہی ہے جِسے زیادہ عرصہ تک محفوظ کِیا جا سکتا ہے۔ جدید ترین تہذیب کا تصور ہی ناممکن ہوتا کیونکہ ٹیکنالوجی میں ترقی وسائل کی کثرت کے سبب ہوتی ہے۔ وہ اِنسان جو اپنا سارا وقت اور قوت خوراک کی تلاش میں صَرف کرتا، کسی اَور کام کے لئے ہرگز نہ سوچ سکتا۔
اگر ہم گھاس کی خصوصات کا بغور مطالعہ کریں تو ہمیں پتہ چلے گا کہ یہ کِس قدر عجیب اور حیرت انگیز خصوصیت رکھتی ہے۔ مثال کے طور پر گھاس پر جانوروں کا چَرنا یا اُس کا کاٹا جانا اچھا ہے۔ بہت سے پودے اپنے تنے کے اَوپر والے سِروں کی طرف سے بڑھتے ہیں اور اگر اُوپر والے سِرے کاٹ ڈالے جائیں تو پودا تباہ ہو جاتا ہے اور آئندہ کے لئے نشوونما نہیں پا سکتا۔ مگر گھاس دوسرے پودوں کے مقابلے میں جڑ سے اُوپر کی طرف بڑھتی ہے لہذا گھاس کو اُوپر سے کاٹنے سے جڑ میں نئی کلیوں کے کھِلنے اور نشوونما پانے میں مدد ملتی ہے، بلکہ یہاں تک کہ گھاس کو گائے بھینسوں کے پائوں تلے کچلے جانے سے بھی فائدہ پہنچتا ہے۔ گھاس کی بہت ساری اَقسام کو اِسی طرح پھیلایا جاتا ہے کیونکہ جب یہ گائے بھینسوں کے کھروں تلے دَب کر کٹتی ہے تو اکثر جڑیں نیچے اُس مقام تک جا پہنچتی ہیں جہاں سے وہ کٹ چکی ہوتی ہیں۔ پھر اِن جڑوں سے نئی گھاس اُگتی ہے اور یوں چرنے والے جانوروں اور گھاس کے درمیان باہمی مفاد پر مبنی ایک متوازن رشتہ قائم رہتا ہے۔ جانور اپنا پیٹ گھاس کے نرم نرم پتوں سے بھر کر راحت محسوس کرتے ہیں اور دوسری طرف گھاس کو نہ صرف جانوروں کے چرنے اور پائوں تلے روندے جانے سے پھیلنے میں مدد ملتی ہے بلکہ اُسے جانوروں کے گوبر وغیرہ سے زرخیزی بھی حاصل ہوتی ہے۔
ہم اِنسان بھی گوشت کھانے کے سبب گھاس کے کسی نہ کسی طرح قرضدار ہیں کیونکہ جن جانوروں کا گوشت ہم کھاتے ہیں وہ گھاس کے پتے اور بیج کھا کر ہی گوشت پیدا کرنے کے قابل ہوتے ہیں۔
دُنیا کے بہت سے حِصوں میں گھاس سے فرنیچر، کشتیاں، مکانات اور پانی کے پائپ وغیرہ بانس سے، جو دراصل گھاس ہی ہے بنائے جاتے ہیں۔ گھاس قیمتی زمین کی حفاظت کا کام بھی سَر انجام دیتی ہے کیونکہ گھاس کی جڑیں زمین پر پھیلا دی جاتی ہیں تو ہر طرف سبزے کا فرش سا بچھ جاتا ہے جو بارش کا پانی چُوس کر زمین کو کٹائو سے بچاتا ہے۔ بے شک ہم خوش قسمت ہیں کہ ہماری دُنیا جا بجا گھاس سے بھری پڑی ہے، مگر یہ سب کچھ کیسے ممکن ہوا؟ کیا یہ کوئی کائناتی حادثہ ہے جس نے پودوں کو مجبور کِیا کہ وہ دوسروں کے پیٹ کا نوالہ بن جائیں؟ یقینا یہ بے تُکی سی بات ہے جو ہر اُس اُصول کے خلاف ہے جو کائنات میں دریافت کِیا جا سکتا ہے۔
مگر یہ کِس طرح ممکن ہے کہ گھاس دوسرے پودوں کے مقابلے میں جڑ سے چوٹی کی طرف بڑھتی اور نشوونما پاتی ہے؟ یوں لگتا ہے کہ کسی نے جان بوجھ کر گھاس کو بنایا تاکہ اِنسانوں اور جانوروں دونوں کے لئے اچھا ہو، اور واقعی یہ ماننے والی بات ہے کہ بالکل ایسا ہی ہے۔ درحقیقت کسی نے گھاس کو اِن تمام اعلیٰ خوبیوں کے ساتھ پیدا کِیا جن کی اِنسانی تہذیب و تمدن کے لئے اشد ضرورت ہے۔ مگر وہ ہے کون جس نے یہ سب ہماری ضروریات کے عین مطابق پیدا کِیا؟ بائبل مقدس اُس عظیم ہستی کو خدا کہتی ہے۔ پیدائش کی کتاب میں یوں لکھا ہے، ’’اور خدا نے کہا کہ زمین گھاس اور بیج دار بوٹیوں کو اور پھل دار درختوں کو جو اپنی جِنس کے موافق پھلیں اور جو زمین پر اپنے آپ ہی میں بیج رکھیں اُگائے اور ایسا ہی ہُوا۔‘‘ (پیدائش ۱:۱۱)
خدائے رحیم و غفور نے ہمیں نہ صرف آگ جلانے کے لئے سُوکھی گھاس کی شکل میں ایک کارآمد چیز سے نوازا بلکہ اِنسانی بدن کے غیر مستقل اور فانی ہونے کو بھی گھاس ہی سے تشبیہ دی۔ جیسا کہ بائبل مقدس میں لکھا ہے، ’’…ہر بشر گھاس کی مانند ہے اور اُس کی ساری شان و شوکت گھاس کے پھول کی مانند۔ گھاس تو سوکھ جاتی ہے اور پھول گر جاتا ہے لیکن خداوند کا کلام اَبد تک قائم رہے گا۔‘‘ (۱-پطرس ۱:۲۴)
یہ دُنیا ہمارا مستقل ٹھکانہ نہیں ہے۔ ہمارا ابدی گھر کہیں اَور ہے۔ یہ بھی بائبل مقدس ہی کا فرمان ہے۔ خدا کا پیارا نبی ایوب دُنیا کی بے ثباتی اور ناپائداری سے ہزاروں سال پہلے ہی آگاہ تھا۔ اِسی لئے اُس نے کہا، ’’…مَیں جانتا ہوں کہ میرا مخلصی دینے والا زندہ ہے اور آخرکار وہ زمین پر کھڑا ہو گا اور اپنی کھال کے اِس طرح برباد ہو جانے کے بعد بھی مَیں اپنے اِس جسم میں سے خدا کو دیکھوں گا۔‘‘ (ایوب۱۹:۲۵)
ایوب نبی کا مخلصی دینے والا پہلے ہی دُنیا میں آ چُکا ہے، اور وہ دُنیا کے آخر میں دوبارہ اپنے الٰہی جلال کے ساتھ آئے گا۔
ایوب نبی اُس مخلصی دینے والے کا نام نہیں جانتا کیونکہ اُس وقت تک وہ ابھی دُنیا میں نہ آیا تھا۔ مگر جبکہ وہ نجات دہندہ ایوب نبی کے دِنوں کے بعد دُنیا میں تشریف لا چُکا ہے تو اَب ہر کوئی اُس کے نام سے واقفیت حاصل کر سکتا ہے۔ نبی نوع اِنسان کے اُس رہائی دہندے کا نام یسوع ہے۔ ہم اُسے مسیح بھی کہتے ہیں، جس کا مطلب ہے مَسح کِیا گیا۔ بائبل مقدس اُسے خدا کا اِکلوتا بیٹا کہہ کر پکارتی ہے۔ بائبل یہ بھی بتاتی ہے کہ خدائے قادرِ مطلق نہیں چاہتا کہ اُس کے بندوں میں سے ایک بھی روحانی موت مرے اور اِسی مقصد کے تحت یسوع مسیح دُنیا میں آیا کہ موت پر فتح پا کے ہمیں گناہ کے بے رحم پنجے سے چھڑائے۔ بائبل مقدس میں لکھا ہے، ’’…موت فتح کا لقمہ ہو گئی۔ اَے موت! تیری فتح کہاں رہی؟ اَے موت! تیرا ڈنک کہاں رہا؟ موت کا ڈنک گناہ ہے… مگر خدا کا شکر ہے جو ہمارے خداوند یسوع مسیح کے وسیلے سے ہم کو فتح بخشتا ہے۔‘‘ (۱-کرنتھیوں ۱۵:۵۷-۵۴)
ایوب نبی کا مخلصی دینے والا آج آپ کا مخلصی دینے والا بھی بن سکتا ہے۔ تو آئیے! کائنات کے ذرے ذرے جو وجودِ الٰہی کا زندہ ثبوت پیش کر رہے ہیں، کچھ جاننے، پہچاننے اور سیکھنے کی کوشش کریں تاکہ اپنے خالق کی مکمل تابعداری کر کے اُس کا جلال ظاہر کر سکیں۔
گھاس
Posted in وجُودِ اِلٰہی