بارش کی قدرتی نظام میں ایک خاص اہمیت ہے۔ اگر بارش نہ ہو تو دریا اور جھیلیں بالکل خشک ہو جائیں اور فصلیں مُرجھا کر تباہ و برباد ہو جائیں، اور بہت جلد لوگ بھوک کی شدت سے نڈھال ہو کر مَر جائیں، اور اگر زیادہ عرصہ تک بارش نہ ہو تو زمین بنجر ہو ہر کر صحرا بن جائے گی، جہاں زندگی کا دُور دُور تک نام و نشان تک نہ ہو گا، اِس طرح کے قحط یا کال تاریخ کو بدل سکتے ہیں، بائبل مقدس میں اِسی طرح کے قحط کا ذکر ہے جب حضرت یوسف مِصر میں حکمران تھے۔ معاشی خوشحالی اور کثرت کے سات سال کے بعد اگلے سات سال قحط و بھوک کے تھے، اِس قحط نے نہ صرف مِصر کی زمین پر بُرا اثر ڈالا بلکہ آس پاس کے علاقوں کی تمام زمین بھی تباہی و بربادی سے بچ نہ سکی، اگر حضرت یوسف کی حکمت و دُور اندیشی سے خوشحالی و کثرت کے دِنوں میں گندم کا ذخیرہ گوداموں میں بچا کے نہ رکھا جاتا تو ہزاروں لوگ بھوک سے مَر گئے ہوتے، اِس قحط ہی کی وجہ سے حضرت یوسف کا خاندان بھاگ کر مِصر آ گیا، جہاں اُنہوں نے ۴۰۰ سال تک رہائش رکھی۔
بدقسمتی سے ایسا بھی وقت آیا جب بہت زیادہ بارشوں کا سلسلہ شروع ہوتا ہے، اور دریائوں اور نہروں میں اِس قدر پانی اِکٹھا ہو جاتا ہے کہ کناروں کو توڑ کر باہر نکلنے لگتا ہے، اور زمین پر ہر طرف پھیل جاتا ہے اور جو کچھ بھی اُس کے راستے میں آئے تباہ و برباد ہو جاتا ہے۔ جدِھر نظر اُٹھائیں بدامنی، بے ترتیبی اور دِل دُکھانے والے مناظر ہوتے ہیں، ایک خاندان کا سارا سامان کہیں اُونچے مقام پر بڑی نفاست و ترتیب سے پڑا ہوا ہے مگر اَب وہاں کچھ بھی باقی نہیں رہا۔ حدِ نظر ویرانی اور پانی ہی پانی ہے، ایک اَور جگہ بہادر مَرد کمر تک پانی میں کھڑے، تیز بہتی ہوئی لہروں کی پرواہ کِئے بغیر ایک معصوم بچے کو ایک ہاتھ سے دوسرے ہاتھ اُٹھا کر بچانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ لوگوں کا جمِ غفیر جو کسی نہ کسی طرح سے پانی سے بچ نکلنے میں کامیاب ہو گیا، بھوک پیاس سے نڈھال ہو کر مدد کے لئے پکار رہا ہے، روزمرہ ضروریاتِ زندگی کی چیزوں کے دام پانی کی تباہی کاریوں کے سبب فصل اور خوراک برباد ہو جانے سے بڑھ جاتے ہیں، اور لوگوں کے لئے اپنے خاندان کو پالنا مشکل سے مشکل تر ہو جاتا ہے۔
ہم اِن تباہی و بربادی لانے والے موسمیاتی عذاب کو کِس طرح واضح کر سکتے ہیں؟ کیا اِس کے پیچھے خدا کا ہاتھ ہے؟ کیا یہ سب خدا کے اِختیار میں ہے، اور اگر سب کچھ اُس کے اِختیار میں ہے تو سوال یہ ہے کہ کیا وہ اُس کو بنی نوع اِنسان کی پرواہ ہے؟ اور اگر اُس کو واقعی پرواہ ہے تو تباہ کن سیلاب اور قحط کیوں آتے ہیں؟ شائد کچھ لوگ کہیں کہ قحط و سیلاب بُرے آدمیوں کے گناہوں کا نتیجہ و سزا ہے، مگر یہ وضاحت کافی نہیں کیونکہ پھر سوال یہ اُبھرتا ہے کہ بُرے لوگوں کے ساتھ اچھے لوگ بھی قحط و سیلاب کی تباہ کاریوں کے سبب سے دُکھ تکلیف کیوں اُٹھاتے ہیں، قدرتی آفات و عذاب کی اَور بھی بُنیادی وجوہات ہیں۔
پولس رسول، خدا کے رُوح کی تحریک سے سَرشار ہو کر واضح طور پر کہتا ہے کہ ہمارے عالمگیر نظامِ کائنات میں ایسی تباہی و بربادی خدا کے ابتدائی منصوبے و ارادے میں شامل نہیں تھی، وہ لکھتا ہے، ’’مخلوقات بطالت کے اِختیار میں کر دی گئی تھی، نہ اپنی خوشی سے بلکہ اُس کے باعث سے جس نے اُس کو، اِس اُمید پر بطالت کے اِختیار میں کر دیا کہ مخلوقات بھی فنا کے قبضہ سے چُھوٹ کر خدا کے فرزندوں کے جلال کی آزادی میں داخل ہو جائے گی، کیونکہ ہم کو معلوم ہے ساری مخلوقات مِل کر اَب تک کراہتی ہے اور دردِ زہ میں پڑی تڑپتی ہے، اور نہ فقط وہی بلکہ ہم بھی جنہیں رُوح کے پہلے پھل مِلے ہیں آپ اپنے باطن میں کراہتے ہیں اور لے پالک ہونے یعنی اپنے بدن کی مخلصی کی راہ دیکھتے ہیں۔‘‘ (رومیوں ۸:۲۰-۲۳)
قدرتی نظام میں رنج و تڑپ کیوں پیدا ہوئی؟ یہ کب گل سڑ کر تباہی کے دھانے پر آ کھڑی ہوئی؟ بائبل مقدس ہمیں بتاتی ہے کہ ایسا اُس وقت ہُوا جب آدم اور حَوا نے باغِ عدن میں ممنوعہ پھل کھا کر گناہ کِیا۔ بنی نوع اِنسان کے زوال سے پیدا ہونے والی تباہ کاریوں کے اثرات اخلاقی اور روحانی دائرہِ اِختیار سے کہیں بڑھ کر ہیں، علمِ طبقات اور علمِ موسمیات جو تخلیقِ کائنات کا ایک حصہ ہے، اِس سے متاثر ہوئے۔ مثال کے طور پر خدا نے آدم سے کہا، ’’کیونکہ تُو نے اپنی بیوی کی بات مانی اور اُس درخت کا پھل کھایا جس کی بابت مَیں نے تجھے حکم دیا تھا کہ اُسے نہ کھانا، اِس لئے زمین تیرے سبب سے لعنتی ہوئی۔‘‘ پیدایش ۳:۱۷)
اِس میں کوئی شک و شبہ نہیں کہ یہ ایک وجہ ہے کہ ہمیں سیلاب، قحط، زلزلوں اور دوسری قدرتی آفات کا کیوں سامنا کرنا پڑتا ہے، ساری کائنات آدم کی گناہ کی وجہ سے لعنتی ہے۔
پیدایش کی کتاب میں بار بار کہا گیا ہے کہ خدا نے جو کچھ بھی تخلیق کِیا وہ ’’اچھا‘‘ تھا۔(۱:۱۰،۱:۱۲، ۱:۱۸، ۱:۲۱، ۱:۲۵) جب خدا نے بنی نوع اِنسان کو تخلیق کِیا تو اُس کے ہاتھ سے بنی ہوئی ہر چیز ترو تازہ اور بے داغ تھی، نہ تو کہیں سیلاب تھا اور نہ قحط، نہ زلزلے تھے اور نہ سونامی، نہ کہیں آندھی طوفان تھا اور نہ برفانی تباہ کاری، مختصر یہ کہ کوئی قدرتی آفت نہ تھی، مگر افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ آج ہم جس دُنیا میں سانس لے رہے ہیں اُس کی اصلی شکل و کاملیت بُری طرح سے مسخ و تبدیل ہو چکی ہے۔
جس طرح ہماری جسمانی دُنیا مسخ و تبدیل ہو چکی ہے، اُسی طرح ہم اپنی زندگیوں میں روحانی اور اخلاقی پستی و زوال بھی دیکھ رہے ہیں۔ ہم اپنے جسم اور شخصیت کو اپنے قابو میں رکھنے کے قابل نہیں رہے ہیں۔ پاک صحائف میں بنی نوع اِنسان کی اِس شرمناک حالت و کمزوری کے بارے لکھا ہے، ’’جو مَیں کرتا ہوں اُس کو نہیں جانتا کیونکہ جس کا مَیں اِرادہ کرتا ہوں وہ نہیں کرتا بلکہ جس سے مجھ کو نفرت ہے وہی کرتا ہوں، اور اگر اُس پر عمل کرتا ہوں جس کا اِرادہ نہیں کرتا تو مَیں مانتا ہوں کہ شریعت خوب ہے، پس اِس صورت میں اُس کا کرنے والا مَیں نہ رہا بلکہ گناہ ہے جو مجھ میں بسا ہُوا ہے۔‘‘ (رومیوں ۷:۱۵-۱۷)
دُنیا کی پیدائش سے لے کر اَب تک کسی نہ کسی شکل میں تباہی و بربادی آتی ہی رہی ہے، ہم اپنے رویہ و سلوک میں بھی اِس کا اثر دیکھتے ہیں، اور سیلاب، قحط اور زلزلوں کی صورت میں ہمیں واضح طور پر دِکھائی دیتی ہے، ہماری ناکامی کے دِنوں میں، خواہ وہ شخصی ناکامی ہو یا جسمانی دُنیا میں ناکامی، ہمیں یاد رکھنا چاہیے کہ خدا قدرتی آفات کے سبب سے جو دُکھ تکلیف ہوتی ہے، اُس سے بے پرواہ و بے خبر نہیں۔
اگرچہ آدم اور حوا کے گناہ کے سبب سے ساری کائناب زول کی پستیوں میں گِر گئی، مگر خدا نے بنی نوع اِنسان کو اُمید کی کرن بھی دِکھائی، اُس نے شیطان کو جس نے اُن دونوں کو گناہ میں پھنسایا جھڑک کر کہا، ’’…مَیں تیرے اور عورت کے درمیان اور تیری نسل اور عورت کی نسل کے درمیان عداوت ڈالوں گا، وہ تیرے سَر کو کچلے گا اور تُو اُس کی ایڑی پر کاٹے گا۔‘‘ (پیدایش ۳:۱۵)
یہ خدا کا وعدہ اور پیشین گوئی تھی کہ ایک دِن وہ کائنات پر پڑی لعنت اور شیطان کے شیطانی ہتھکنڈوں کو نیست و نابود کر دے گا۔ یہی وجہ ہے کہ خدا نے مسیح یسوع کو دُنیا میں بھیجا، پولس رسول لکھتا ہے، ’’… اُس مُبارک اُمید یعنی اپنے بزرگ خدا اور مُنجی یسوع مسیح کے جلال کے ظاہر ہونے کے مُنتظر رہیں،جس نے اپنے آپ کو ہمارے واسطے دے دیا تاکہ فدیہ ہو کر ہمیں ہر طرح کی بے دینی سے چُھڑا لے اور پاک کر کے اپنی خاص مِلکیت کے لئے ایسی اُمت بنائے جو نیک کاموں میں سَر گرم ہو۔‘‘ (طِطس ۲:۱۳-۱۴)
ایک اَور مقام پر پاک کلام میں لکھا ہے کہ، ’’ضرور ہے کہ وہ آسمان میں اُس وقت تک رہے جب تک کہ وہ سب چیزیں بحال نہ کی جائیں جن کا ذِکر خدا نے اپنے پاک نبیوں کی زبانی کِیا ہے جو دُنیا کے شروع سے ہوتے آئے ہیں۔‘‘ (اعمال ۳:۲۱)
مسیح یسوع ہی کے وسیلے سے ہمارے گناہ معاف ہو سکتے ہیں اور خدا کے پاک روح کا تحفہ اِنعام میں مِل سکتا ہے جس کی مدد سے ہم اخلاقی اور روحانی طاقت پائیں گے، اور ہمارے جسمانی اور دُنیاوی ماحول میں جو افسوسناک، بے قاعدہ و بے ترتیب بگاڑ پیدا ہُوا ہے، جس کے سبب سے سیلاب، قحط اور زلزلوں جیسی آسمانی آفات نازل ہو رہی ہیں، آخرِکار بالکل ختم ہو جائے گا، جیسا کہ پاک کلام میں لکھا ہے، ’’لیکن خداوند کا دِن چور کی طرح آ جائے گا، اُس دِن آسمان بڑے شور و غل کے ساتھ برباد ہو جائیں گے اور اجرامِ فلک حرارت کی شدت سے پِگھل جائیں گے اور زمین اور اُس پر کے کام جل جائیں گے، جب یہ سب چیزیں اِس طرح پِگھلنے والی ہیں تو تمہیں پاک چال چلن اور دینداری میں کیسا کچھ ہونا چاہیے، اور خدا کے اُس دِن کے آنے کا کیسا کچھ مُنتظر اور مُشتاق رہنا چاہیے، جس کے باعث آسمان آگ سے پِگھل جائیں گے اور اجرامِ فلک حرارت کی شدت سے گل جائیں گے، لیکن اُس کے وعدے کے مُوافق ہم نئے آسمان اور نئی زمین کا اِنتظار کرتے ہیں جن میں راستبازی بسی رہے گی۔‘‘ (۲-پطرس ۳:۱۰-۱۳)
یوحنا رسول بھی کائنات میں نئی تبدیلی کے بارے میں بتاتا ہے، ’’پھر مَیں نے ایک نئے آسمان اور نئی زمین کو دیکھا کیونکہ پہلا آسمان اور پہلی زمین جاتی رہی تھی اور سمندر بھی نہ رہا، پھر مَیں نے شہرِ مقدس نئے یروشلیم کو آسمان پر سے خدا کے پاس سے اُترتے دیکھا اور وہ اُس دلہن کی مانند آراستہ تھا جس نے اپنے شوہر کے لئے سِنگار کِیا ہو، پھر مَیں نے تخت میں سے کسی کو بلند آواز سے یہ کہتے سُنا کہ دیکھ خدا کا خیمہ آدمیوں کے درمیان ہے اور وہ اُن کے ساتھ سکونت کرے گا اور اُس کے لوگ ہوں گے اور خدا آپ اُن کے ساتھ رہے گا اور اُن کا خدا ہو گا، اور وہ اُن کی آنکھوں کے سب آنسو پونچھ دے گا۔ اِس کے بعد نہ موت رہے گی اور نہ ماتم رہے گا، نہ آہ و نالہ نہ درد، پہلی چیزیں جاتی رہیں، اور جو تخت پر بیٹھا ہُوا تھا اُس نے کہا دیکھ مَیں سب چیزوں کو نیا بنا دیتا ہوں، پھر اُس نے کہا لکھ لے کیونکہ یہ باتیں سچ اور برحق ہیں۔‘‘ (مکاشفہ ۲۱:۱-۵)
جب سب چیزیں نئی بن کر بحال ہو جائیں گی، جب پُرانا نظام و ماحول ختم ہو جائے گا، اور کائناب پر پڑی لعنت ہمیشہ کے لئے ختم ہو جائے گی، یوحنا رسول لکھا ہے، ’’پھر اُس نے مجھے بلور کی طرح چمکتا ہُوا آبِ حیات کا ایک دریا دِکھایا جو خدا اور برہ کے تخت سے نکل کر اُس شہر کی سڑک کے بیچ میں بہتا تھا، اور دریا کے وار پار زندگی کا درخت تھا، اُس میں بارہ قِسم کے پھل آتے تھے اور ہر مہینے میں پھلتا تھا اور اُس درخت کے پتوں سے قوموں کو شِفا ہوتی تھی، اور پھر لعنت نہ ہو گی۔‘‘ (مکاشفہ ۲۲:۱-۳)
یہ صرف اور صرف مسیح یسوع کی صلیب پر قربانی کے سبب سے ہو گا کہ خدا کائنات میں زندگی کی ایک نئی روح پھونک دے گا، اور ہر چیز پاک صاف و شفاف ہو جائے گی، اور ہمارے گناہوں کی وجہ سے لعنت کی سزا بھی ہمیشہ کے لئے ختم جائے گی۔