Skip to content

کنگُرو

Posted in وجُودِ اِلٰہی

آسٹریلیا کے کنگرو قدرت کا ایک اعلیٰ اور حیرت انگیز شاہکار ہیں۔ وہ ٹڈوں کی طرح بلکہ اُن سے قدرے زیادہ چھلانگ لگا سکتے ہیں، وہ بھیڑوں کی طرح مگر اُن سے قدرے زیادہ گھاس چرتے ہیں، وہ ہم اِنسانوں کی طرح مُکہ بازی کرتے ہیں مگر غصہ کِئے بغیر، وہ اپنے بچوں کو جسم کے اگلے حِصے میں بنی ہوئی گھونسلا نما تھیلیوں میں رکھتے ہیں جو اُن کے لئے گھر کا پورا آرام مُہیا کرتی ہیں۔
مثال کے طور پر ایک بڑا جوان کنگرو ایک چھلانگ میں 9 میٹر تک کود سکتا ہے بلکہ اُن کی چھلانگ کا فاصلہ 13.5 میٹر تک ریکارڈ کِیا گیا ہے۔ جب وہ کسی خطرے سے ڈر کر بھاگ رہے ہوتے ہیں تو اُن کی رفتار 30 میل یعنی 50 کِلومیٹر فی گھنٹہ سے بھی تجاوز کر جاتی ہے۔ لیکن کنگرو پیچھا کرنے واے سے اگر آگے نہ نکل سکے تو قریب ہی کہیں پانی کا رُخ کرتا ہے۔ کنگروؤں کے بارے میں مشہور ہے کہ وہ چھاتی تک گہرے پانی میں بیٹھ سکتے ہیں اور پیچھا کرنے والے کتوں کو سَر سے پکڑ کر پانی میں ڈبو دیتے ہیں، اور اگر اِرد گِرد کافی مقدار میں پانی دستیاب نہ ہو تو ایک کنگرو اپنے پچھلے بڑے پنجے دفاعی ہتھیا کے طور پر اِستعمال کرتا ہے اور وہ ہلاکت خیز بھی ثابت ہو سکتے ہیں۔
آسٹریلیا کے کچھ اضلاع میں بھیڑیں پالنے والوں نے دیکھا ہے کہ کنگرو کے لئے بھیڑیں پالنا اچھا ہے۔ بھیڑیں پالنے والے پاس جتنی زیادہ بھیڑیں ہوں گی شائد اُتنے ہی زیادہ کنگرو بھی ہوں گے کیونکہ بھیڑیں اچھی اچھی گھاس کھا لیتی ہیں اور خراب گھاس چھوڑ دیتی ہیں جو بعد میں ہر طرف پھیل جاتی ہے۔ کنگرو اُس کم رَس دار گھاس پر پلتے بڑھتے ہیں جو بھیڑوں نے اپنے پائوں تلے رَوند کر چھوڑ دی ہوتی ہے۔ اِس طرح زمین کنگروئوں کو رفتہ رفتہ زیادہ خوراک مُہیا کرتی ہے اور بھیڑوں کے لئے کم تر گھاس اُگاتی ہے۔
جوان کنگرو آپس میں کھیل کود کے لئے مُکے بازی کرتے ہیں،۔جب اُن کو آدمیوں کے ساتھ مُکہ بازی کی تربیت دی جاتی ہے تو سِکھانے والے کے سامنے سب سے بڑا مسئلہ یہ ہوتا ہے کہ وہ خوب اچھی طرح سے دیکھے کہ کہیں وہ اپنے ہلاکت خیز پنجے نہ اِستعمال کر بیٹھے۔
لیکن کنگرو کی اپنی تربیت گاہ جس کو وہ اُٹھائے اُٹھائے پھِرتا ہے، اُس کا ایک بہت بڑا عجوبہ ہے۔ اِس تربیت گاہ کا انوکھا پن سمجھنے کے لئے ضروری ہے کہ ہم اِس میں رہنے والے پر غور کریں۔ اگر آپ نے کسی کنگرو کو نہ دیکھا اور نہ ہی اُس کے بارے میں سُنا ہو لیکن صرف یہ موقع مِلا کہ اُس کے نئے پیدا ہونے والے بچے کو دیکھ سکیں تو شائد آپ اندازہ نہ لگا سکیں ایک انتہائی چھوٹا سا گِیلا لوتھڑا جوان ہو کر کیسا دِکھائی دے گا، اِس لئے کہ پیدائش کے وقت بچے کا وزن ایک گرام یا اِس سے بھی کم ہوتا ہے، اور اُس کی لمبائی صرف 2 سینٹی میٹر ہوتی ہے۔ پیدائش کے وقت اُس کے ہاتھ پائوں، سَر اور جسم اِسقدر نامکمل ہوتے ہیں کہ اندازہ لگانا مشکل ہوتا ہے کہ وہ کِس طرح پورے طور پر اپنی اصلی شکل اِختیار کریں گے۔ نئے پیدا ہونے والے بچے نہ تو دیکھ سکتے ہیں اور نہ ہی سُن سکتے ہیں۔ حتیٰ کہ وہ اپنی ماں کا دودھ بھی نہیں چُوس سکتے، پھر بھی پیدائش کے وقت کنگرو کے بچے کا ایک عضو مکمل ہوتا ہے یعنی اُس کے اگلے پائوں کے پنجے، تاکہ بچہ اُن کے ذریعہ رِحم سے نکل کر اُوپر لگی ہوئی تھیلی میں رینگتا ہوا آ جا سکے۔ رِحم سے تھیلی تک کا فاصلہ اکثر اوقات اُس کی اپنی لمبائی سے کئی گُنا زیادہ ہوتا ہے۔
بچے کی ماں 3 سے 5 منٹ تک بڑے شوق سے اُسے آتے جاتے دیکھتی ہے لیکن وہ اُس وقت تک مداخلت نہیں کرتی، جب تک بچہ تھک ہار نہ جائے۔ جبکہ بچہ ماں کی گرم گرم تھیلی میں ہے تو وہ بے چینی اور پریشانی کے عالم میں اُس وقت تک اِدھر اُدھر چکر لگاتا رہتا ہے جب تک اُسے دودھ پینے کے لئے ماں کی چھاتیاں نہیں مِل جاتی۔ جب وہ ایک چھاتی سے دُودھ چُوسنا شروع کر دیتا ہے تو چھاتی کا اگلا حِصہ یعنی سَر سُوج کر اِتنا بڑا ہو جاتا ہے کہ چاہنے کے باوجود منہ میں اُس کی گرفت ڈھیلی نہیں ہوتی۔ بچے کی ہر ضرورت اِس تھیلی میں پوری کی جاتی ہے یعنی اگر وہ کھانا، گرمائی اور پناہ چاہتا ہے تو ماں کے ساتھ لگا ہوا تھیلی نما گھر سب کچھ مُہیا کرتا ہے، یہاں تک مادہ کنگرو کی چھاتیوں میں خاص پٹھے ہوتے ہیں جو بچے کے منہ میں دُودھ انڈیلنے کی کام کرتے ہیں۔ دراصل کنگرو کے بچے کو تھیلی کی صورت میں دوسرا رحِم مِل جاتا ہے جہاں وہ اپنی پرورش کو تکمیل تک پہنچاتا ہے۔
اِس سے پہلے کہ وہ اپنے طور پر ماں کا دُودھ چھوڑنے کے قابل ہو، اُس کو کچھ مہینے چاہیے ہوں گے، اُس وقت تک اُس کا وزن ہزار گُنا سے بڑھ کر کئی کِلوگرام ہو جائے گا، اور وہ اپنے بدن پر نرم مُلائم بالوں کا کوٹ پہن چُکا ہو گا۔ اَب یقینا وہ ایک جوان کنگرو دِکھائی دے رہا ہے، اور اُس کے اندر باہر کی دُنیا کے بارے میں تجسُس بھی بڑھ رہا ہے۔ لہذا وہ اپنا زیادہ تر وقت تھیلی سے سَر باہر نکال کر اِدھر اُدھر جھانکنے میں صَرف کرتا ہے۔ جب اُس کی ماں گھاس چرنا ذرا رُوک دیتی ہے تو عین ممکن ہے کہ وہ کود کر باہر نکل جائے اور خود بخود گھاس کُترنا شروع کر دے۔ پرورش کے اِن دِنوں میں وہ دوسرے کنگروؤں کے بچوں کے ساتھ دوستی بڑھاتا ہے اور یہ بھی ممکن ہے کہ اُن میں سے کسی ایک کو کچھ دیر کیلئے اپنے گھر میں بُلائے، بالکل جس طرح ہم اِنسانوں کے بچے کرتے ہیں۔ آخرِکار وہ دِن بھی آ پہنچتا ہے جب اُس کی قد و قامت کے لحاظ سے تھیلی میں رہنے کی مزید جگہ نہیں رہتی لیکن وہ پھر بھی کئی مہینے تک صرف کھانے کے وقت واپس تھیلی میں آ جائے گا مگر جب وہ بالکل تیار ہو جاتا ہے تو اُس کی ماں اُسے بتاتی ہے کہ وقت آ گیا ہے وہ باہر کی دُنیا میں جائے اور اپنے پائوں پر خود کھڑا ہو۔ اور اَب ماں کو تھیلی کی آنے والے بچے کے لئے ضرورت ہے۔ درحقیقت آنے والا بچہ پہلے ہی سے اُس کے پیٹ میں تیار ہو رہا تھا۔
کنگرو عام طور پر بچہ پیدا ہونے کے جلد ہی بعد جِنسی مِلاپ کرتے ہیں۔ اِس کے باوجود کہ حمل صرف 30 یا 40 دِن تک رہتا ہے مگر موجودہ بچے کو اِس کے برعکس تھیلی کی کافی مُدت تک ضرورت ہوتی ہے۔ لیکن خدا کا شکر ہے کہ اِس مسئلے کے حل کے لئے ایک خاص اِنتظام ہے کہ شروع کے دِنوں میں پیٹ میں پڑا ہوا بچہ نشوونُما پانا رُوک دیتا ہے اور خاموشی سے اُس وقت کا اِنتظار کرتا ہے جب تک ماں صرف اور صرف اُس پر پوری توجہ دے سکے۔ جب موجودہ بچے کو تھیلی کی ضرورت نہیں ہے تو کچھ پُراسرار پیغام کے ذریعہ پیٹ میں پڑا ہوا بچہ پھر سے نشوونَما پانا شروع کر دیتا ہے۔
ایک جوان کنگرو کو پروان چڑھانے پیچھے بہت سے پہلو ایسے ہیں جو ہمیں احساس دِلاتے ہیں کہ یہ سب کچھ ایک ذہین اور پُرحکمت تخلیق کار نے مُنظم کِیا ہے۔ پیٹ میں پڑا ہوا نامکمل بچہ اور دوسرا رحِم یعنی تھیلی آپس میں اِسطرح رابطہ جوڑے ہوئے ہیں کہ یہ محض اِتفاق نہیں لگتا ۔
اگر اِرتقائی نقطہء نظر کے حامیوں میں سے کوئی کہے کہ یہ اِنتظام صرف حاجت مندی کے سبب سے وجود میں آیا تو یہ مضحکہ خیز بیان ہے کیونکہ ماں اور بچے کی ضروریات دونوں بالکل الگ الگ ہیں۔ درحقیقت بچے کی ضروریات بہیت ہی زیادہ ہیں۔ ماں کنگرو کو حیاتیاتی طور پر قطعی ضرورت نہیں کہ وہ اپنی اولاد کے لئے تربیت گاہ مُہیا کرے، اور اگر وہ ایسی تربیت گاہ خود تیار کرنا چاہتی ہے تو اُس کو کچھ بھی معلوم نہیں کہ کیا کرنا ہے۔ اِس کے لئے ایک اعلیٰ ترین مصور اور ایک طاقت ور مُنتظم کی ضرورت ہے۔ اِس لاثانی منصوبہ بندی کا پہلا ثبوت بچے کے اگلے پنجے کا تیزی سے مکمل ہونا ہے جس کی مدد کے بغیر وہ تھیلی تک نہیں پہنچ سکتا۔ دوسرا ثبوت ماں کی چھاتی کے اگلے حصہ کا بچے کے منہ میں سُوج کر بڑا ہونا اور خاص طور پر ماں کا اُس میں دُودھ انڈیلنا ہے۔ اِن مختلف سہولتوں کے بغیر بچوں کی ہر ایک نسل یقینا مَر گئی ہوتی۔ لیکن خدا کی اِس تخلیق اور تدبیر کا سب سے سُنہری ثبوت آنے والے بچے کی پیٹ میں وقفے سے نشوونُما ہے تاکہ پہلے سے موجود بچہ اپنے پائوں پر آپ کھڑا ہو سکے۔
زندگی کو ابتدائی مراحِل میں پھلنے پھولنے کی ضرورت ہوتی ہے جب ایک دفعہ تخم ریزی ہو چُکی تو نشوونُما کو سوائے موت کے کوئی اَور چیز رُوک نہیں سکتی۔ یہ ایک مکمل عالمگیر اُصول ہے۔ لیکن کنگرو کا اِنتظام معمول سے بالکل ہٹ کر ہے۔ کنگرو میں تخم ریزی کے بعد معمول کے مطابق خلیوں کے ذریعہ دوبارہ افزائش کا سلسلہ شروع ہوتا ہے جب تک کہ وہ تقریباً 100 خلیوں کی حد تک نہ پہنچ جائے۔ اِس مقام پر افزائش رُک جاتی ہے، اور پھر جب وہ پُراسرار پیغام ملتا ہے کہ اُس کے لئے سب کچھ تیار ہے تو تکمیل کا کام شروع ہو جاتا ہے۔ ماں کنگرو صرف تجربہ سے سیکھ کر یہ اعلیٰ اِنتظام پیدا نہیں کر سکتی۔ لازم ہے کہ کنگرو کے اندر قدرتی طور پر پہلے ہی سے یہ اِنتظام موجود ہو۔
یہاں ہم پھر دیکھتے ہیں کہ زمین پر بسنے والے جانور ہمیں خدا کے وجود کا احساس دِلاتے ہیں۔ ایوب نبی نے کافی عرصہ پہلے بنی نوع اِنسان کو بتایا، ’’کون نہیں جانتا کہ اِن سب باتوں میں خداوند ہی کا ہاتھ ہے جس نے سب بنایا۔ــ‘‘ (ایوب ۱۲:۹) لیکن ایوب نبی یہ بھی جانتا تھا کہ خدا کے بارے میں صرف یہ علم رکھنا ہی کافی نہیں کہ وہ تخلیق کار ہے، وہ خدائے بزرگ و برتر کے بارے میں کہتا ہے، ’’اُسی کے ہاتھ میں ہر جاندار کی جان اور کُل بنی آدم کا دَم ہے۔‘‘ (ایوب ۱۲:۱۰)
خدا زندگی اور موت پر قدرت رکھتا ہے۔ اُس کے ہاتھ میں ہماری زندگی کا دم ہے۔ لہذا لازم ہے کہ ہم خدا کی ذات کے بارے میں جانیں۔ کیا وہ ظلم روا رکھنے والا اور انتقام لینے والا خدا ہے یا وہ ایسا باپ ہے جو پیار و شفقت کا اظہار کرنے کے لئے بے چین و بے قرار ہے؟ ہم پر یہ بھی لازم ہے کہ ہم سمجھیں کہ اُس تک رسائی کیسے حاصل کریں اور کیسے اُس کی خوشنودی پائیں۔ یہ معلومات خدا نے ہمیں خوشی سے اُس کتاب کے ذریعہ فراہم کی ہیں جِسے بائبل کہتے ہیں۔
بائبل ہمیں خدا کے بارے میں اور ہمارے بارے میں بتاتی ہے۔ یہ مقدس کتاب ہمیں خدا کے اکلوتے بیٹے یسوع مسیح کے بارے میں بھی بتاتی ہے کہ وہ دُنیا میں کیوں آیا، کیوں اُس نے ہماری خاطر اپنی قیمتی جان کا نذرانہ پیش کِیا۔ بائبل مقدس ہمیں بتاتی ہے کہ ہم کِس طرح یسوع مسیح کے وسیلے سے یعنی اُس پر مکمل ایمان لا کر خدا کے بیٹے اور بیٹیاں بن سکتے ہیں۔
بائبل مقدس دُنیا میں ایک لاثانی اور اہم ترین کتاب ہے لیکن یہ اپنی دولت کا بیش قیمت خزانہ صرف اُن پر نچھاور کرتی ہے جو خلوصِ دِل سے سچائی کے متلاشی ہیں۔ آئیے، کائنات کے ذرے ذرے سے جو قدم قدم پر وجودِ الٰہی کا زندہ ثبوت پیش کر رہے ہیں، کچھ سیکھنے اور جاننے کی کوشش کریں تاکہ اپنے تخلیق کار کی حمد و ستائش گا سکیں۔