کئی زمانے پہلے کی بات ہے کہ ایک مشاہدہ کرنے والا دانشمند ایک عام سی چیونٹی پر اپنی نظریں جمائے اُس کی سرگرمیوں اور حرکات و سکنات کا جائزہ لے رہا تھا، اتب اُس نے آئندہ نسلوں کیلئے ایک دانشمندانہ نصیحت لکھی کہ، ــ’’اے کاہل! چیونٹی کے پاس جا۔ اُس کی رِوشوں پر غور کر اور دانشمند بن۔ جو باوجودیکہ اُس کا نہ کوئی سردار نہ ناظِر نہ حاکِم ہے، گرمی کے موسم میں اپنی خوراک مُہیا کرتی ہے اور فصل کٹنے کے وقت اپنی خورِش جمع کرتی ہے۔‘‘ (امشال ۶:۶-۸)
دراصل اُس نے مشرقِ وسطیٰ میں پائے جانے والی اُن چیونٹیوں کے متعلق لکھا جن کے بارے میں وہ خوب جانتا تھا، مگر بعد ازاں مشاہدات و تحقیق نے یہ ثابت کر دیا کہ اِس دُنیا میں تقریباً آٹھ ہزار چیونٹیاں پائی جاتی ہیں۔ اِن ہزاروں اقسام میں سے کچھ تو بڑی ہیں یعنی ایک اِنچ لمبی، کچھ چھوٹی ہیں، کچھ میں ڈنک مارنے کی طاقت ہے، اور کچھ میں نہیں۔ بہت سی چیونٹیاں بِلوں میں رہتی ہیں اور کچھ ایسی بھی ہیں جو بِلوں میں نہیں رہتی، مثال کے طور پر افریقہ کی لشکری چیونٹیاں لمبی قطار بنا کر ساری زندگی فوجیوں کی طرح مارچ کرتے ہوئے گزار دیتی ہیں، اور کیڑے مکوڑے کھا کر اپنا پیٹ بھرتی ہیں۔ فوجی چیونٹیاں دُنیا بھر کے کیڑوں میں یہ نمایاں خصوُصیت رکھتی ہیں کہ اُن کی زندگی ڈرامائی زندگی ہوتی ہے، اِن بارے میں عجیب و غریب کہانیاں مشہور ہیں۔ اگرچہ اِن میں کچھ کہانیاں مبالغہ آمیز ہیں مگر کچھ دلچسپ، حیرت انگیز اور حقیقت پر مبنی ہیں۔ فوجی چیونٹیاں ضرورت کے تحت ایک بڑی منظم فوج کی طرح حرکت کرتی ہیں، یعنی امن کے زمانے میں یہ فوج زمین پر آہستہ آہستہ حرکت کرتی ہوئی جنگل کے پتوں اور کھیتوں کے گھاس پھُوس کے نیچے اپنی خوراک تلاش کرتی ہیں، اور پھر فوجی دستے تھوڑی ہی دیر میں درختوں پر چڑھ جاتے ہیں۔ فوجی چیونٹیوں کے راستے میں جو پَردار کیڑے آتے ہیں وہ اِنہیں دیکھتے ہی اُڑ جانے کی کوشِش کرتے ہیں، لیکن اکثر دُشمن پرندوں کا شکار ہو جاتے ہیں جو اِسی موقع کی تلاش میں گھات لگائے فوجی چیونٹیوں کے سامنے منڈلا رہے ہوتے ہیں کہ جونہی پَردار کیڑے جوف زدہ ہو کر اُڑیں تو اُن کا نوالہ بن جائیں۔
دوسرے چھوٹے چھوٹے حیوان بھی جو اچھا خاصا تیز دوڑ سکتے ہیں چیونٹیوں کی فوج کو دیکھ کر بھاگ جاتے ہیں، لیکن اکثر کے ڈر اور خوف کے مارے ہوش اُڑ جاتے ہیں اور وہ سیدھے اُن کے منہ میں آ پڑتے ہیں، اور ہراول دستے اُنہیں ڈنک مار مار کے ہلاک کر دیتے ہیں۔ بعض اوقات چھوٹے موٹے دودھ پِلانے والے جانور بھی اِن کا شکار ہو جاتے ہیں، لیکن عام طور پر فوجی چیونٹیاں کیڑوں مکوڑوں پر ہی گزارا کرتی ہیں۔ ہنگامی حالت میں جب راستہ اُونچا نیچا ہو تو چند رضاکار چیونٹیاں آگے بڑھکر اپنے آپ کو گڑھے میں گِرا دیتی ہیں تا کہ پیچھے آنے والی فوج کے گزرنے کے لئے راستہ ہموار ہو جائے، اور اگر کہیں راستہ ٹیڑھا تِرچھا ہو تو سینکڑوں رضاکار چیونٹیاں اپنے آپ کو گِرا کر راستے کو بالکل سیدھا کر دیتی ہیں، اِسی طرح اگر راستے میں گہرا گڑھا یا کھائی آ جائے تو رضاکار فوج کے سپاہی ایک دوسرے کے پنجے پکڑ کر ایک لٹکنے والے پُل کی صُورت اِختیار کر لیتے ہیں تاکہ باقی فوج کے دستے پُل پر سے بغیر کسی رُکاوٹ کے گزر سکیں۔ چیونٹیوں پر مشتمل یہ فوج کبھی کبھی آرام پر کرتی ہے جبکہ اُن کی ملِکہ انڈے دینے میں مصرُوف ہوتی ہے اور جب دوبارہ سفر کا آغاز کرتی ہیں تو انڈوں کو اپنے ساتھ لے جاتی ہیں۔
چیونٹیوں کی ایک قِسم ایسی ہے جو شبنمی شہد یعنی رَس چُوس کیڑے مکوڑے کی میٹھی رطُوبت کھانے کی وجہ سے شہدی چیونٹیاں کہلاتی ہیں، اِن کیڑے مکوڑوں کا خاص نام رُوکھ جُوں یعنی پودوں کے کیڑے ہے۔ شہدی چیونٹیاں رَس چُوس کیڑے مکوڑوں کے پیٹ پر ضَرب لگا کر اُن کا دُودھ نکالتی ہیں۔
اناج کے جڑی کیڑے مکوڑوں اور اناج کی کھیتی چیونٹیوں کا آپس میں چولی دامن کا ساتھ ہے، رَس چُوس کیڑے مکوڑوں کی نسل کا زیادہ تر اِنحصار اپنی آقا چیونٹی پر ہے، چیونٹیاں رَس چُوس کیڑے مکوڑوں کی اِس طرح دیکھ بھال کرتی ہیں جس طرح ایک کِسان اپنے مال مویشیوں کی دیکھ بھال کرتا ہے۔ خزاں کے موسم میں رَس چُوس چیونٹیاں کیڑے مکوڑوں کے انڈے جمع کرتی ہیں اور سردی کے موسم میں اپنے بِلوں میں اِن انڈوں کی حفاظت کرتی ہیں۔ موسمِ بہار میں یہ اپنے نَوعمر رَس چُوس کیڑے مکوڑوں کو سبزے اور گھاس پُھوس کی تازہ جڑوں پر بِٹھاتی ہیں، جب کھیتوں میں مکئی کی بُوائی ہوتی ہے اور کونپلیں نکلتی ہیں تو کِسان چیونٹیاں اپنے کیڑے مکوڑے وہاں لے جاتی ہیں جہاں سے وہ اپنی پسندیدہ خوراک یعنی مکئی کے پودوں کی جڑوں کا رَس پیتی ہیں۔ یہ بات تحقیق و تفتیش سے دریافت ہو چکی ہے کہ اناج کے رَس چُوس کیڑے مکوڑے چیونٹیوں کے بغیر اپنی پسندیدہ خوراک حاصِل کرنے میں کسی حد تک بے یارو مددگار ہوتے ہیں۔
چیونٹیوں کی ایک اَور قِسم پتا کاٹ چیونٹیاں کہلاتی ہیں، اِن کا ذریعہ معاش سب سے دلچسپ ہے، یہ جن پتوں کے ٹکڑے گھسیٹ کر اپنے بِلوں میں لاتی ہیں اُن کی کھاتی نہیں بلکہ چبانے کے بعد اپنے بِل کے فرش پر بچھا دیتی ہیں، جس سے ککرمُتا یعنی کھمبی اُگتی ہے، یہی ککر مُتا اِن چیونٹیوں کی خوراک ہے۔ پتا کاٹ چیونٹی کی ایک اَور قِسم پتوں کے بِکھرے ہوئے چھوٹے چھوٹے ٹکڑوں کو کھاد سے زرخیز کرتی ہے، پھر اپنے پُرانے باغ سے وہی ککر مُتا لے کر اپنے ہاں منتقل کرتی ہے۔ وہ اِس کی خوب دیکھ بھال کرتی ہے تاکہ کسی دوسری قِسم کا ککر مُتا نہ اُگ جائے، اور اِن چیونٹیوں کی ساری بستی اِس ککر مُتا کو کھا کر زندگی گزارتی ہے۔
یہ سب کچھ سامنے رکھتے ہوئے ہمیں دریافت کرنا ہے کہ یہ ہنرمندی اور حکمت اِن چیونٹیوں کو کِس نے سِکھائی؟ کہاں سے حاصِل ہوا اِن کو یہ سارا علم؟ چیونٹیوں کو کیسے معلوم ہوا کہ وہ پتے جن کو وہ چباتی ہیں اُن سے ایک باغ بنا سکتی ہیں؟ اُن کو کِس طرح پتہ چلا کہ اگر وہ اِس باغ کو کھاد سے زرخیز کریں تو زیادہ مقدار میں خوراک حاصِل ہو گی؟ کِس نے اُن کو پودوں کو ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل کرنا سِکھایا؟ اور مکئی چیونٹیاں کو کِس نے سِکھایا کہ وہ کیڑے مکوڑوں کی پرورش کریں؟ اگر ہم اِس راز پر ذرا گہرائی سے توجہ دیں تو صاف معلوم ہو جائے گا کہ یہ چیونٹیاں جو ککر مُتا کھاتی ہیں اِسے آہستہ آہستہ بذاتِ خود اُگانا خود سے نہیں سیکھ سکتیں ورنہ سیکھتے سیکھتے بُھوک سے مَر جائیں۔
کسان چیونٹیاں، ککر مُتا بڑھانے والی چیونٹیاں، لشکری چیونٹیاں، بِل بنانے اور نہ بنانے والی چیونٹیاں اپنی اپنی جبلت کے مطابق کام کرتی ہیں، وہ اپنی جنس کے اعتبار سے جبلی عقل و حکمت کے ذریعہ ہمیشہ وہی کام کرتی ہیں جو کسی عظیم ہستی نے اُنہیں عطا کر رکھا ہے۔ ہم اِس کائناتی نظام میں نقشِ خدا دیکھتے ہیں جو اِس اِتنی طاقت و قدرت رکھتا ہے کہ زندگی کی ہر چیز اپنے پیچیدہ ذرائع معاش سمیت پیدا کر سکتا ہے، وہ طرح طرح ایسی بے شمار اقسام پیدا کرتا ہے جن کا ایک دوسرے سے چولی دامن کا ساتھ ہوتا ہے۔
بِلاشک و شبہ ایسے لاتعداد کیڑے مکوڑوں کو زندگی دے سکتا ہے وہ یقینا بنی نوع اِنسان سے نہایت بالا تر ہے، کلامِ مقدس میں خدا نے اپنے نیک بندے ایوب سے دریافت کِیا، ’’ گورخر کو کِس نے آزاد کِیا؟ جنگلی گدھے کے بند کِس نے کھولے؟… شُترمرغ کے بازو آسودہ ہیں لیکن کیا اُس کے پَر و بال سے شفقت ظاہر ہوتی ہے؟ کیونکہ وہ تو اپنے انڈے زمین پر چھوڑ دیتی ہے اور ریت سے اُن کو گرمی پہنچاتی ہے اور بھول جاتی ہے کہ وہ پائوں سے کچلے جائیں گے یا جنگلی جانور اُن کو روند ڈالے گا… خواہ اُس کی محنت رائگاں جائے اُسے کچھ خوف نہیں کیونکہ خدا نے اُسے عقل سے محروم رکھا اور اُسے سمجھ نہ دی۔‘‘ (ایوب کی کتاب ۳۹:۵،۱۳-۱۷)
حقیقت یہ ہے کہ ہم جتنا غور سے فطرت کے گہرے بھیدوں کا کھوج لگاتے ہیں یقینا ہم اُتنا ہی واضح طور پر خدا کی دستکاری، اور خدا کے وجود کو دیکھتے ہیں۔ اُس کی تخلیق کے نقش نمایاں ہیں بشرطیکہ ہم کھلی آنکھوں سے دیکھنے کوشِش کریں، جیسا کہ اِنجیلِ پاک میں لکھا ہے، ’’کیونکہ اُس کی اَن دیکھی صفتیں یعنی اُس کی ازلی قدرت اور الوہیت دُنیا کی پیدائش کے وقت سے بنائی ہوئی چیزوں کے ذریعہ سے معلوم ہو کر صاف نظر آتی ہیں…‘‘ (رومیوں ۱:۲۰)