شائد اِنسان ہمیشہ سے پرندوں کے اُڑنے کی صلاحیت کا حاسِد رہا ہے۔ ہماری ساری تاریخ گواہ ہے کہ وہ اپنی اِس کوشِش میں ایڑیاں رگڑ رگڑ کر تھک گیا ہے، اور اپنے سَر کے اُوپر پرندوں کو جھپٹ کر نیچے اُترتے اور اُونچا اُڑتے دیکھ رہا ہے۔ اِکارُس کی قدیم یونانی داستان ہمیں بتاتی ہے کہ اُس نے پَروں کو مُوم لگا کر اپنے بازوٗوں کے ساتھ جکڑ لیا۔ یہ فرضی کہانی بنی نوع اِنسان کی ناکامی اور محرُومی کو ظاہر کرتی ہے۔ اِس قدیم روایت کے مطابق اِکارُس مُوم سے جُڑے ہوئے پَروں کی بدولت کافی بلندی تک پرواز کرنے کے قابل ہو گیا مگر جب سُورج کی گرمی نے مُوم کو پگھلا دیا تو وہ گِر کر مَر گیا۔ درحقیقت اِنسان کو اِس سے کہیں زیادہ محنت و تحقیق کرنے کی ضرورت ہے بہ نسبت اِس کے وہ اُدھارے پَروں کو لے کر اُڑنے کے قابل ہو۔ اِس کے سبب سے بنی نوع اِنسان مشینی مدد کی طرف راغب ہوئے، مثلاً گرم ہَوا کا غُبارہ اور پھر خلا میں جانے والا راکٹ۔ یقینا یہ شاندار کامیابی ہے، لیکن اِس کے باوجود ہماری مشینی پرواز پرندوں کی اُس بِلارکاوٹ آزاد پرواز سے کہیں پیچھے ہے جس سے وہ لطف اندوز ہوتے ہیں۔
لیکن سوال یہ ہے کہ پرندے کِس طرح اُڑتے ہیں؟ ہمیں اُن لوگوں کا مشکور ہونا چاہیے جنہوں نے اپنی ساری زندگی پرندوں کا مطالعہ کرنے میں صرف کر دی، اِسی لئے ہم کافی حد تک جانتے ہیں کہ پرندے کیسے اُڑتے ہیں۔
ہم جتنا زیادہ پرندوں کے بارے میں سیکھتے ہیں اُتنا ہی زیادہ ہم پر واضح ہوتا ہے کہ اُڑنا پرندوں کے لئے فطری عمل ہے۔ یہ قدرت کا خاص تحفہ ہے جس کے لئے اُن میں بہت سی اہم طبعی خصوصیات کی ضرورت ہوتی ہے۔ سب سے پہلے یہ کہ پرندوں کو پرواز کے لئے پَروں کی ضرورت ہوتی ہے۔ بجائے چار ٹانگوں اور ہاتھوں کے جن سے وہ پائدار اور مُستفید ہوتے ہیں، قدرت نے اُنہیں پَر عطا کئے ہیں۔ پَروں کی ہڈیاں جانوروں کی اگلی ٹانگوں کی ہڈیوں اور ہم اِنسانوں کے بازوئوں کی ہڈیوں کی طرح ہوتی ہیں۔ دوسرا یہ کہ پرندوں کی ہڈیاں اندرونی طور پر باقی جانوروں کی ہڈیوں سے مختلف ہوتی ہیں۔ وہ دوسرے جانوروں اور آدمیوں کی بھاری اور گودے سے بھری ہوئی ہڈیوں کی نسبت کھوکھلی ہوتی ہیں۔ وہ نہ صرف کھوکھلی بلکہ اندرونی طور پر مضبوطی سے جکڑی ہوئی بھی ہوتی ہیں تاکہ زیادہ وزن کے بغیر پختگی فراہم کر سکیں۔ یہ اِنتہائی اہم چیز ہے کیونکہ پرندوں کو پرواز کے لئے اپنے بدن کا سارا بوجھ اُٹھانا پڑتا ہے۔
دراصل ہم جب بھی پرندوں کے مُتعلق سُوچتے ہیں تو ہمارا ذہن فوراً اُن کے پَروں کی طرف جاتا ہے۔ پرندوں کے بازؤوں پر کافی حد تک اُس جوہری مادے کی پیداوار ہوتے ہیں جس سے دوسرے جانوروں کے سینگ یا کُھر یا پنجے یا اِنسانوں کی اُنگلیوں کے ناخن بنتے ہیں۔ پَر کیا ہی لاثانی تخلیق ہے۔ ہڈیوں کی طرح وہ کھوکھلے، کم لچکدار اور مضبوط ہوتے ہیں۔ پرندوں کے ہر ایک پَر کے بیچ جوہری مادے سے بنی ہوئی ایک مرکزی تِیرنما ڈنڈی ہوتی ہے جس کے دونوں طرف چھوٹے چھوٹے خوبصورت پنکھ پُھوٹ نکلتے ہیں، جو ایک دوسرے کے ساتھ جُڑے ہوئے ہوتے ہیں، بالکل اِس طرح کے وہ حرکت بھی کر سکتے ہیں اور دیکھنے میں بڑی مہارت سے پیوستہ بھی دِکھائی دیتے ہیں۔ اِسی سبب سے وہ ہَوا کو مخالف سمت میں دھکیلنے کے قابل ہوتے ہیں۔
عام طور پر ہر ایک پرندہ دَس ایسے پَروں سے آراستہ ہوتا ہے جو ہر ایک بازو کے باہر کنارے کے ساتھ لگے ہوتے ہیں۔ بازو کا یہ حصہ تقریباً اِنسانی ہاتھ کے مُشابہ ہوتا ہے۔ پرندوں کی پرواز کرنے کی زیادہ قابلیت اِنہی پَروں سے حاصل ہوتی ہے۔ زیادہ تر پرندے اپنے بازؤوں کو اِنسانی کندھے، کہنی اور کلائی کے مقابلے میں تین الگ جوڑوں میں حرکت دیتے ہیں۔
پرواز کے دوران نچلی سطح کی ساخت کے سبب سے اُٹھائو پیدا ہوتا ہے۔ کافی حد تک ہوائی جہاز کے پَروں کا اُٹھائو بالکل اِسی طرح ہوتا ہے۔ ہوائی جہاز کے ساتھ مزید مقابلہ کرتے ہوئے پتہ چلتا ہے کہ پرندوں کے بازو کا وہ حِصہ جو اِنسانی ہاتھ کے مُشابہ ہے بالکل ہوائی جہاز کے دھکیلنے والے پنکھے کا کام دیتا ہے کیونکہ وہ تحریکی قوت پیدا کرتا ہے۔
تمام پرندے پَر پھڑپھڑا کر اُڑتے ہیں، مگر کچھ پَر پھڑ پھڑانے کی نسبت Glider کی مانند سُبک رفتاری سے پرواز کرتے ہیں اور کچھ ایسے بھی ہیں جو اُونچائی پر پہنچنے کے بعد Glider کی طرح سُبک رفتاری اِختیار کرتے ہیں۔ ایسے پرندے یعنی عُقاب اور گدھ جب زمین سے اُوپر Glider کی مانند بلندی پر اُڑتے ہیں تو بے حِس و حرکت دِکھائی دیتے ہیں۔ وہ بلندی پر اُٹھا لے جاتے والے بڑے بڑے پَروں سے آراستہ ہوتے ہیں اور گھنٹوں گرم ہَوا پر اُڑتے ہیں۔
Glider کی مانند سُبک رفتاری سے اُڑنے والے پرندوں کا بادشاہ Albatross کہلاتا ہے جو جنوبی سمندروں پر نظر آتا ہے۔ وہ اپنے ساڑھے گیارہ فٹ پھیلے ہوئے بازئووں کی مدد سے اُڑتا ہے، اور سمندر کی سطح کے اُوپر نہ صرف دِنوں بلکہ ہفتوں خوراک کی تلاش میں بے حِس و حرکت اُڑتا رہتا ہے۔ اِس طویل گشت کے دوران ایسا دِکھائی دیتا ہے کہ وہ پانی پر صرف اپنا پیٹ بھرنے کے لئے اُترتا ہے۔ یہ بھی خیال کیا جاتا ہے کہ دورانِ پرواز وہ سو بھی سکتا ہے۔
اِس کے علاوہ اَور بھی ایسی بہت سی خصوصیات ہیں جو پرندوں کی اُڑان کو ممکن بناتی ہیں۔ مثال کے طور پر اُن کے بازئووں کو چھاتی کے مضبوط پٹھوں سے طاقت ملتی ہے جو اُن کے کل وزن کے ۲۵ فیصد حِصے پر مُشتمل ہوتے ہیں (یہ وزن بھنبھنانے والے پَروں میں ۳۰ فیصد ہوتا ہے) دلچسپ بات یہ ہے کہ اِن پروازی پٹھوں کا گوشت سفید یا سُرخ بھی ہو سکتا ہے۔ پٹھوں کے گوشت کا رنگ اِس پر منحصر ہے کہ اُن کو خونی نالیوں سے کتنا خون حاصل ہوتا ہے۔ ہجرتی پرندے جو مختلف حالات میں سینکڑوں میل بغیر رُکے اُڑتے ہیں اُن کے پٹھوں کا گوشت خاص طور پر سُرخ ہوتا ہے۔ سفید گوشت والے پرندے لمبی پرواز جاری رکھنے کے قابل نہیں ہوتے، اگرچہ وہ تھوڑی مُدت کے لئے بڑی تیزی سے اُڑ سکتے ہیں۔
آئیے! اَب پرندوں کی پُرتاثیر غذا کو ہضم کرنے کے طریقۂ کار کا جائزہ لیں۔ یوں لگتا ہے کہ اِس مُعاملے میں بِھنِھنانے والے پرندے شائد سب سے زیادہ اعلیٰ قابلیت رکھتے ہیں۔ وہ صرف پھولوں سے رَس لے کر اِس مِٹھاس کو چربی میں تبدیل کرتے ہیں تاکہ زیادہ سے زیادہ حرارت جمع ہو، اور پھر عین اُسی وقت جب طاقت کی ضرورت ہوتی ہے تو چربی کو واپس مِٹھاس میں تبدیل کر دیتے ہیں۔
بھِنبِھنانے والے پرندے ہجرتی ہوتے ہیں اور اُن میں بہت سے جب موسمِ گرما اور موسمِ سرما کے رہائشی ٹھکانے تبدیل کر رہے ہوتے ہیں تو بغیر رُکے ۵۰۰ میل سے زیادہ خلیج میکسیکو سے بھی دُور سفر کرتے ہیں۔
یہ اندازہ لگایا گیا ہے کہ اگر بِھنبِھنانے والے پرندے اِنسان کی جسامت کے ہوتے تو تقریباً ۰۰۰،۱۵۵ ہزار مادۂ حرارت ایک دِن میں اِستعمال کرتے۔ ذرا سوچیئے کہ اگر ایک آدمی کو اِتنی قوت و طاقت پیدا کرنی پڑتی تو اُس کو ۲۸۵ پائونڈ گوشت یا ہر روز ۱۳۰ پائونڈ روٹی کھانی پڑتی۔
اَب سوال یہ ہے کہ پرندوں کی یہ خصوصیات کِس طرح وجود میں آئیں؟ کیا اگلی ٹانگیں آہستہ آہستہ پَروں یا بازئووں میں تبدیل ہو گئی؟ اگر ایسا ہوتا تو پھر ہمیں اُن پرندوں پر ترس آنا چاہیے جن کی نہ ٹانگیں اور نہ پَر تھے، بلکہ کروڑوں برس کے دوران اِس تبدیلی کی وجہ سے وہ پرندے درمیانی شکل اِختیار کر لیتے۔ اگر اِس طرح کسی نہ کسی صورت میں واقعی ہوا ہے تو یہ سب کچھ قابلِ یقین نہیں، اور اگر ایسا ممکن بھی ہوتا تو اِس درمیانی حالت کے آثار آج حاصل کیوں نہیں ہوئے؟ ایسا کوئی بھی ثبوت نہیں ہے، بلکہ سب سے پُرانے آثار پرندوں کی مکمل شکل ظاہر کرتے ہیں۔ اُن کی کوئی تبدیل شدہ شکل کبھی ظاہر نہیں ہوئی۔ اگر نظریہء اِرتقا سچا ہوتا تو اِس لمبی مدت کے دوران ہزاروں درمیانی شکلیں دستیاب ہونی چاہیے تھیں۔ مگر ایسا نہیں ہوا، کیونکہ یہ سب کچھ اِرتقاً کے سُست عمل کے ذریعہ نہیں بلکہ خدائے قادرِ مطلق کے اعلیٰ اِنتظام اور ازلی اِرادے کے سبب سے وجود میں آیا ہے۔ جیسا کہ بائبل مقدس میں لکھا ہے، ’’اور خدا نے بڑے بڑے دریائی جانوروں کو… اور ہر قِسم کے پرندوں کو اُن کی جِنس کے موافق پیدا کِیا اور خدا نے دیکھا کہ اچھا ہے۔‘‘ (پیدائش ۱:۲۱)
لہذا جس طرح پرندے خدا کے اِنتظام کے تحت اپنا وجود رکھتے ہیں اُسی طرح بنی نوع اِنسان الٰہی قدرت سے ایک سوچے سمجھے مقصد کے تحت خلق کِئے گئے ہیں۔ پرندے جبلی طور پر خدا کی مرض بجا لاتے ہیں لیکن بنی نوع اِنسان کے لئے لازم ہے کہ وہ دانشمندی سے کام لے کر نہ صرف وجودِ الٰہی کو تسلیم کرے بلکہ اپنے آپ کو مکمل طور پر اُس کے تابع بھی کرے۔
پرندے کِس طرح اُڑتے ہیں؟
Posted in وجُودِ اِلٰہی