ہم اپنی شخصیت، وضع قطع اور جِنس کے اعتبار سے وہی ہیں جو ہیں یعنی اگر مرد ہیں مرد ہی رہیں گے، اگر عورت ہیں تو عورت سے ہی رہیں گے، اگر چھوٹے قد کے ہیں تو چھوٹے قد کے ہی رہیں گے اور بڑے قد کے ہیں بڑے قد کے ہی رہیں گے۔ ہم اپنے آپ کو بدل نہیں سکتے کیونکہ پیدائشی طور پر ہمارے اندر یہ خُصوصیت نہیں۔ ہماری پیدائش ہمارے والدین کے جسمانی مِلاپ سے ہوئی اور اُن کی پیدائش اُن کے ماں باپ کے جسمانی مِلاپ سے ہوئی، یہ سلسلہ روزِ اوال سے یونہی چلتا آ رہا ہے۔
ہم میں سے ایسا کون ہے جس کے دامن میں یہ خواہش کروٹیں نہیں لے رہی کہ وہ زیادہ خوبصورت، لمبا اور چُست و ہوشیار نظر آئے، لیکن اکثر ہماری خواہشات کی راہ میں ہماری بے بسی اور بے کسی آ جاتی ہے۔ بنی نوع اِنسان کی اِسی بے بسی و مجبوری کی طرف اشارہ کرتے ہوئے دُنیا کے عظیم اُستاد یعنی یسوع المسیح نے فرمایا، ’’تم میں ایسا کون ہے جو فکر کر کے اپنی عمر میں ایک گھڑی بھی بڑھا سکے؟‘‘ (متی ۶:۲۷)
اِس کا جواب یقینا یہی ہے کہ واقعی ایسا کوئی نہیں۔ مگر ایک مخلوق ایسی ہے کہ جو نہ صرف اپنا قد بدلتی ہے بلکہ رنگت، عادات اور کسی حد تک اپنی شکل بھی بدل لیتی ہے، یہ مخلوق مشرقِ وسطی اور افریقہ کے ممالِک میں پائے جانے والی ٹڈی ہے۔
وسیع تحقیقات کے بعد پتہ چلا ہے کہ نَومولود ٹڈی یا تو تنہا پرورش پاتی ہے یا دوسری ٹڈیوں کے جُھنڈ میں۔ تنہائی میں پرورش پانے والی ٹڈی ہلکے سبز اور پیلے رنگ کی ہوتی ہے، شکل و صورت کے لحاظ سے وہ عام ٹڈی کی طرح ہی ہوتی ہے۔ وہ رات کے وقت زیادہ چاق چوبند دِکھائی دیتی ہے اور شائد وہی وجہ ہے کہ اگر اُسے ایک جگہ سے دوسری جگہ مُنتقل ہونا ہو تو رات کی تاریکی میں ایسا کرتی ہے۔ اگر ٹڈی نے جُھنڈ دوسری ٹڈیوں کے ساتھ پرورش پائی ہو تو اُس پَر زیادہ چمکدار اور لمبے ہوتے ہیں، وہ جسمانی طور پر بڑی ہوتی ہے، اُس کی رنگت گہری پیلی، گلابی اور سُرخ ہوتی ہے۔ وہ دِن کے اُجالے میں ہی کھاتی پیتی اور دِن کے اُجالے میں ہی ایک جگہ سے دوسری جگہ مُنتقل ہوتی ہے۔ جُھنڈ میں پرورش پانے والی ٹڈی کو جِنسی اعبتار سے بڑا ہونے میں تقریباً چھ ماہ کا عرصہ درکار ہوتا ہے، عمر کے اعتبار سے اِن کیڑوں کے لئے چھ ماہ کی یہ مُدت بہت زیادہ ہے کیونکہ اُن کی عمر ایک سال سے کم ہوتی ہے۔
جُھنڈ میں پرورش پانے والی ٹڈیاں کروڑوں کی تعداد میں اُڑتی ہیں، اِس جُھنڈ کی اُونچائی زمین سے تقریباً ڈھائی میل اور اُس کا پھیلائو تقریباً سو مربع میل یا اِس سے بھی زیادہ جگہ کو گھیرے ہوئے ہوتا ہے۔ ایک مرتبہ کینیا میں ٹڈی دَل اُڑتے ہوئے تین سو پچاسی مربع میل کے رقبہ کو گھیرے ہوئے تھا۔ ٹڈی دَل تین ہزار میل سے زیادہ کا فاصلہ طے کر سکتا ہے، اگر اُسے سفر کے دوران کافی خوراک یعنی سبزی وغیرہ مِل جائے تو وہ ہر روز اپنے وزن کے برابر نباتات کھاتا چلا جائے گا۔ اِس لئے یہ کوئی حیرت کی بات نہیں کہ بنی نوع اِنسان ایسی ٹڈیوں سے خوف محسوس کرتے ہیں۔ لیکن سوال یہ ہے کہ وہ کیوں ایک گروہ یا جُھنڈ کی شکل میں اُڑتی ہیں؟ کیا وجہ ہے کہ جب ٹڈیاں پیدا ہوتی ہیں تو کچھ تنہائی میں اور کچھ جُھنڈ یعنی گروہ میں زندگی گزارتی ہیں۔ تحقیق کرنے والوں کو معلوم ہوا ہے کہ یہ فیصلہ اُن کی جائے پیدائش پر مبنی ہے، دراصل ٹڈی کے انڈوں سے بچہ پیدا ہونے کے لئے کافی نمی کی ضرورت ہوتی ہے اور پیدائش کے بعد اُس کی پرورش کے لئے بہت زیادہ نباتات کی ضرورت ہوتی ہے۔
جب انڈوں سے بچے نکلتے ہیں تو اُس وقت اگر بچوں کے پاس کافی خوراک ہو تو یہ بچے تنہائی پسند ہو جاتے ہیں اور اپنی جگہ چھوڑ کر کہیں اَور جانا نہیں چاہتے۔ لیکن اگر خوراک اور نمی کی کمی ہو تو یہ بچے پَر نکلنے سے پہلے ہی دوسری جگہ منتقل ہونا شروع کر دیتے ہیں، اِسی عمر میں اُن کی جسمانی خُصوصیات تبدیل ہوتی ہیں تاکہ لمبا سفر طے کرنے کے قابل ہوں۔ جب یہ ٹڈیاں ایک جُھنڈ کی شکل اِختیار کر لیتی ہیں تو اُس وقت تک اُڑتی رہتی ہیں جب تک اُنہیں ایسا علاقہ نظر نہ آ جائے جہاں بارش ہونے کے سبب سے خوراک کی بُہتات ہو اور جہاں وہ آسانی سے اپنے انڈوں پر بیٹھ سکیں، دلچسپ بات یہ ہے کہ بچے پیدا کرنے کے بعد جُھنڈ کی ٹڈیاں رفتہ رفتہ مرنے لگتی ہیں۔
ایک اَور توجہ طلب بات یہ ہے کہ بنائے عالم سے لے کر آج تک یہ ٹڈیوں پر منحصر نہیں کہ بڑی ہو کر کِس قِسم کی ٹڈیاں بنیں گی، اُن کی اپنی خواہش سے ایسا ہرگز نہیں ہوتا اور جب ا،س تبدیلی کی ضرورت ہوتی ہے تو لازم ہے کہ فوری تکمیل کی جائے، ابتدا سے ایسا ہی ہوتا چلا آیا ہے۔
ٹڈیاں یہ عجیب و غریب تبدیلی نہ تو خود کر سکتی ہیں اور نہ ہی محض اتفاقاً ہوتی ہے بلکہ اِن کے پیچھے کوئی نہ کوئی مُحرک ضرور ہے جس کے وسیلے سے سارا کام نہایت خوبصورتی اور ترتیب سے انجام پاتا ہے۔ اِنجیلِ مقدس میں یسوع المسیح کے حق میں صاف لکھا ہے، ’’…جو کچھ پیدا ہوا ہے اُس میں سے کوئی چیز بھی اُس کے بغیر پیدا نہیں ہوئی۔‘‘ (یوحنا ۱:۳)
زمین و آسمان پر جو کچھ ہو رہا ہے اُس کا کوئی نہ کوئی سبب ضرور ہے، دوسرے لفظوں میں یہ کہ ٹڈیوں کو یہ انوکھی خوبیاں صرف اُس عظیم ہستی کی طرف سے عطا کی گئی ہیں جو اُن کا خالق و مالک یعنی پیدا کرنے والا ہے۔ خدائے قادرِ مطلق نے بنی نوع اِنسان کو بھی بے شمار خوبیوں سے نوازا ہے جن سے ہم بھی اپنی حاجت کے مطابق کام لے کر زندگی کی راہ سنوار سکتے ہیں۔ کیوں نہ اپنے پیدا کرنے والے یعنی اپنے تخلیق کار کا شکریہ ادا کریں؟ نہ صرف اِس لئے کہ وہ مالکِ دو جہاں ہے بلکہ اِس سے کہیں زیادہ وہ ہمارا آسمانی باپ ہے جس نے ہمیں پیدا کِیا۔
خوش نصیب ہیں وہ لوگ جو زندہ خدا کو جانتے، پہچانتے اور اُس سے محبت رکھتے ہیں کیونکہ اُن کے بارے بائبل مقدس میں پیشین گوئی ہے کہ، ’’پھر مَیں نے تخت میں سے کِسی کو بلند آواز سے یہ کہتے سُنا کہ دیکھ خدا کا خیمہ آدمیوں کے درمیان ہے اور وہ اُن کے ساتھ سکونت کرے گا اور وہ اُس کے لوگ ہوں گے اور خدا آپ اُن کے ساتھ رہے گا اور اُن کا خدا ہو گا اور وہ اُن کی آنکھوں کے سب آنسو پونچھ دے گا۔ اِس کے بعد نہ موت رہے گی اور نہ ماتم رہے گا، نہ آہ و نالہ نہ درد۔ پہلی چیزیں جاتی رہیں۔‘‘ (مکاشفہ ۲۱:۳-۴)
لیکن اِس سے پہلے کہ خدا کے ساتھ ہمارا ایسا رشتہ قائم ہو لازم ہے کہ ہم اپنے آپ کو پَرکھ کر مکمل طور پر اپنی باطنی حالت تبدیل کریں۔ دِل کی یہ تبدیلی ٹڈی کی اُس تبدیلی سے کہیں زیادہ عمیق و گہری ہونی چاہیے، کیونکہ خداوند خدا فرماتا ہے، ’’…مَیں بلنداور مقدس مقام میں رہتا ہوں اور اُس کے ساتھ بھی جو شکستہ دِل اور فروتن ہے تا کہ فروتنوں کی رُوح کو زندہ کروں اور شکستہ دِلوں کو حیات بخشوں۔‘‘ (یسعیاہ ۵۷:۱۵)