ذرا تھوڑی دیر کے لئے تصور کر لیجئے کہ آپ شہد کی مکھی ہیں، ایک ایسی شہد کی مکھی جو پھولوں سے رَس کی تلاش میں کہیں دُور اِدھر اُدھر اُڑ رہی ہے اور آخرِکار بڑی محنت و کوشِش کے بعد کامیاب ہو گئی ہے اور رَس پی کر اپنے چھتے میں واپس آ جاتی ہے۔ لیکن سوال یہ ہے کہ شہد کی ایک مکھی کو پھولوں سے رَس نکالنے کے لئے کتنے ہفتے لگ جاتے ہوں گے؟ جبکہ چھتے میں بہت مکھیاں بُھوکی ہیں، سینکڑوں شہد کی مکھیاں اِس کام میں ایک دوسرے کی مدد کرنا چاہتی ہیں مگر وہ بے بس و لاچار ہیں کیونکہ اُن کو اُس راستے کا علِم نہیں جو اُنہیں باغ تک پہنچا دے۔ اَب مسئلہ یہ ہے کہ آپ اُنہیں صحیح راستہ کیسے بتائیں گے؟
شائد آپ راہنمائی کے لئے اُن کے آگے آگے چلیں، مگر شہد کی مکھیاں راہنمائی کا یہ طریقہ اِختیار نہیں کرتیں، معلوم نہیں کہ ایسا کیوں ہے، اور اِس کی وجہ کیا ہے، لیکن یہ ایک ایسی حقیقت ہے جس کی تصدیق اَن گنت مشاہدات سے ہوتی ہے۔ راہنمائی کا طریقہ نہ اِختیار نہ کرنے کی ایک وجہ یہ ہو سکتی ہے کہ راہنما شہد کی مکھی کو سفر کی تھکاوٹ کے سبب سے آرام کی ضرورت ہوتی ہے۔ وہ طریقہ جس کی وہ پیروی کرتی ہیں یہ ہے کہ جب ایک مکھی پھولوں کے باغ تک پہنچنے میں کامیاب ہو جاتی ہے تو وہ واپس آ کر چھتے کی دوسری مکھیوں کے سامنے رقص کرتے ہوئے یہ بتانے کی کوشِش کرتی ہے کہ باغ کِس سمت پر اور کتنے فاصلے پر ہے، رقص سے وہ یہ ظاہر بھی کرتی ہے کہ اُس باغ سے کتنا شہد حاصل ہو سکتا ہے، اور دلچسپ بات یہ ہے کہ پھولوں کی مہک سے جو رہنما مکھی اپنے ساتھ باغ سے لاتی ہے چھتے کی باقی مکھیوں کو پتہ چل جاتا ہے کہ باغ میں کِس قِسم کے پھول ہیں۔ اِس طرح چھتے کی مکھیوں کو باغ کے بارے میں پوری معلومات حاصل ہوتی ہے، لیکن یہ کام آہستہ آہستہ شروع ہوتا ہے۔ سب سے پہلے صرف دو چار مکھیاں رقص کرنے والی مکھی کی ہدایت پر عمل کرتی ہیں، اور جب وہ واپس چھتے پر پہنچتی ہیں تو وہ خود رقص کرتے ہوئے اِس بات کی تصدیق کرتی ہیں کہ وہ معلومات جو رہنما کی مکھی کی معرفت ہمیں ملی وہ دُرست ہے، پھر سب مکھیاں اُس جگہ سے شہد حاصل کرنے لگتی ہیں۔
رہنما مکھی جس رقص سے چھتے کی دوسری مکھیوں پر باغ کے بارے میں معلومات ظاہر کرتی ہے، کچھ اِس طرح ہوتا ہے، رقص کرتے کرتے پہلے وہ بائیں جانب ایک نصف دائرہ سا بناتی ہے، پھر خطِ مستقیم بناتی ہوئی اُسی مقام پر پہنچتی ہے جہاں سے رقص شروع کِیا تھا۔ اِسی طرح وہ نصف دائرہ دائیں جانب بناتی ہے، پھر واپس کئی منٹ تک دائیں بائیں لگا تار چکر لگاتی ہے اور ہر مرتبہ رقص کرتے ہوئے دائرے کو دو مُساوی حِصوں میں تقسیم کر دیتی ہے، اور اپنے جسم کے پچھلے حِصے کو زور زور سے ہلاتی ہے، اگر باغ کا فاصلہ سو گز سے زیادہ نہ ہو تو صرف ایک سادہ دائرہ بنا کر رقص کرتی ہے۔
خطِ مستقیم بنانے سے رقص کرنے والی شہد کی مکھی چھتے کی دوسری مکھیوں پر ظاہر کرتی ہے کہ پھولوں کا باغ دُور ہے۔
اُسی سمت پہ جہاں سے وہ خطِ مستقیم بناتی ہے، سورج کے ساتھ موازنہ کرنے سے باقی مکھیوں کو معلوم ہو جاتا ہے کہ پھولوں کا باغ کِس طرف ہے۔ وہ اپنے بدن کی ہلکی یا تیز جنِبش سے دوسری مکھیوں پر یہ بھی واضح کرتی ہے کہ باغ سے کِتنا شہد اکٹھا ہو سکتا ہے، ہلکی جنِبش اِس بات کی علامت ہے کہ شہد کم مِقدار میں ہے۔ اِس کے علاوہ وہ اپنے رقص کی رفتار سے ظاہر کرتی ہے کہ باغ دُور ہے یا نزدیک…فاصلے کا یہ اشارہ محض زمین کے فاصلے کو ظاہر نہیں کرتا مگر پھر پھی مکھیوں کو اِس سے باغ کی طرف جانے میں کافی مدد ملتی ہے، کیونکہ یہ اشارہ واضح کرتا ہے کہ وہ تک جانے میں کتنی طاقت اور وقت درکار ہو گا۔ اگر وہ آہستہ رفتار میں رقص کرے تو اِس کا مطلب ہے کہ باغ دُور ہے اور اگر تیز رفتار میں کرے تو باغ نزدیک ہے۔ رہنما مکھی چھتے کے اندر کسی بھی سمت پر دیوار پر رقص کرتے ہوئے ایک تصوراتی نقشہ سا کھینچتی ہے جس سے وہ دوسری مکھیوں پر ظاہر کرتی ہے کہ اُنہیں باغ کی طرف جانے کے لئے کون سا راستہ اِختیار کرنا چاہیے۔
اِس تصوراتی نقشہ کے مطابق سیدھی اُوپر والی سمت سورج کی طرف اشارہ کرتی ہے، اِس تصوراتی خط کے ذریعہ رہنما مکھی جو خطِ مستقیم بناتی ہے وہ پھولوں کے باغ کی طرف، سورج کی نسبت راستے کا تعین کرتا ہے، اَب جُوں جُوں سورج بلند ہوتا جاتا ہے رقص کرنے والی مکھیاں سورج کی سمت کے مطابق اپنے رقص کے انداز کو بدلتی جاتی ہیں۔ شہد کی مکھیوں کی آنکھیں اِتنی حَساس ہوتی ہیں کہ وہ سورج کی طرف دیکھے بغیر اُس کی سمت معلوم کرلیتی ہیں۔ ہمیں یہ بھی پتہ چلتا ہے کہ شہد کی مکھیاں سیدھا راستہ اور ہموار راستہ نہ ہونے باوجود خوراک والی جگہ تک پہنچ سکتی ہیں، مثلاً اگر سیدھی راہ میں کوئی اُونچا پہاڑ آ جائے تو وہ رہنما مکھی کے مقرر کردہ وقت کے حِساب سے اندازہ لگا کر پہاڑ کے پہلو سے نکل کر باغ تک پہنچ جائیں گی کیونکہ وقت کی کمی بیشی سے اُن کو معلوم ہو جاتا ہے کہ اُن کی منزل قریب آنے میں ابھی کتنی دیر ہے۔
کارل وان فِرش شہید کی مکھیوں کا ماہر ایک جرمن سائنسدان تھا، اُس نے شہد کی مکھیوں کی ذہانت و قابلیت کی معلومات حاصل کرتے ہوئے حیرت کا اِظہار کِیا اور کہا، ’’شہد کی مکھیاں ناپنے والا آلہ، زاویہ کش اور ڈرائنگ بورڈ اِستعمال کِئے بغیر کسی بھی رکاوٹ کو عبور کر کے دُوبارہ اپنے اصلی راستے پر آ سکتی ہیں۔ ہمیں تسلیم کرنا پڑے گا کہ شہد کی مکھیوں کی یہ قابلیت کُل کائنات کی قابلیت کے مقابلے میں نہائت اعلیٰ ہے۔‘‘
ہم جرمن سائنسدان کے اِس بیان سے بالکل مُفِتق ہیں کیونکہ دُنیا میں ایسے بہت سے لوگ ہیں جو ایسا مشکل و کٹھن مسئلہ حل نہیں کر سکتے، کیونکہ اگر اُن کے راستہ میں کوئی رکاوٹ آ جائے تو وہ یقناً گمراہ ہو جائیں گے، لیکن سوچنے کی بات یہ ہے کہ شہد کی مکھیوں میں حیرت انگیز طور پر آپس میں اِتنا مضبوط رابطہ قائم رکھنے اور فیصلہ کرنے کی بے پناہ طاقت و قوت کہاں سے اور کِس طرح آ گئی؟ شائد کوئی یہ کہے کہ صدیوں گزرنے کے ساتھ ساتھ آہستہ آہستہ اُن میں یہ طاقت و قوت پروان چڑھتی رہی، لیکن ایسی قابلیت و اہلیت شروع ہی سے اُن میں ہونا لازم و ضروری تھی، کیونکہ اگر وہ اپنا کام اِسی طرح انجام نہ دیں تو اُن کا چھتا بھی قائم نہیں رہ سکتا، اِسی لئے ہم یقینی طور پر کہہ سکتے ہیں کہ شہد کی مکھیوں کی یہ قابلیت ابتدا سے چلی آ رہی ہے ورنہ اُن کا وجود باقی نہ رہتا۔
اَب یہ تو صاف ظاہر ہو گیا کہ مکھیوں کا فن فِطری ہے، مشلاً اُن کا آپس میں جبلی لگائو، اُن کا اپنی ٹانگوں کے ٹوکری نما حِصے میں پھولوں کا زیرہ جمع کرنا اور اُن کا لمبی زبان سے پھولوں کا رَس نکالنا، یہ سب خوبیاں اُن کی فِطرت میں شروع ہی سے شامِل ہے، جن کی وجہ سے وہ اپنا مقصدِ زندگی مکمل کرتی ہیں۔ یہ سب کچھ پاک کلام کے عین مطابق ہے، جیسا کہ لکھا ہے، ’’اور خدا نے جنگلی جانوروں اور چوپایوں کو اُن کی جِنس کے موافق اور زمین کے رینگنے والے جانداروں کو اُن کی جِنس کے موافق بنایا اور خدا نے دیکھا کہ اچھا ہے۔‘‘ (پیدائش ۱:۲۵)
پاک کلام میں ایک اَور مقام پر لکھا ہے، اِس لئے خدا کی ’’…اَن دیکھی صِفتیں یعنی اُس کی ازلی قدرت اور الوہیت دُنیا کی پیدائش کے وقت سے بنائی ہوئی چیزوں کے ذریعہ معلوم ہو کر صاف نظر آتی ہیں۔‘‘ (رومیوں ۱:۲۰)
ہمیں تسلیم کرنا پڑے گا کہ شہد کی مکھیاں خدا کی دستکاری کا ایک اعلیٰ ترین نمونہ ہیں، گو بنی نوع اِنسان اُن کے مقابلے میں کہیں زیادہ افضل و اعلیٰ ہے مگر پھر بھی خود مختار نہیں ہے۔ ہمیں یہ بھی تسلیم کرنا ہے کہ خدائے قادرِ مطلق ہمارا خالق و مالک ہے، اپنے تخلیق کار کی عطاکردہ اِس عظیم سرفرازی کو ذہن میں رکھ کر ہمارا فرضِ اولین ہے کہ دِل و جان سے اُس کی حمد و ستائش کریں۔