ساری دُنیا میں موسمِ گرما کے دوران میدانوں، جنگلوں، گلِستانوں، چراگاہوں، گھروں اور گلی کوچوں میں اکثر ایک معجزہ رُونما ہوتا ہے۔ یہ کروڑوں مکڑیوں کے جالا بُننے کا واقعہ ہے جو بار بار دہرایا جاتا ہے۔ اِس سے پہلے کہ ہم کہیں کہ یہ معجزہ نہیں، تو کیوں نہ پورے طور پر اِس کا جائزہ لیں؟
آئیے کچھ حیرت انگیز ہنرمند ریشم کی تاروں کی سجاوٹ کا معائنہ کریں، مگر اِس کے لئے لازم ہے کہ ہم مکڑی کو اپنا جالا بُنتے ہوئے دیکھیں۔ سب سے پہلے مکڑی کے کاتنے کے طریقۂ کار کا جائزہ لینا چاہیے۔ مکڑیاں جالا بُننے کے لئے اپنے شِکم پر دو سے چھ بلکہ اِس سے بھی زیادہ عضو رکھتی ہیں۔ ہر ایک جالا بُننے والے عضو سے مکڑیاں مختلف قِسم کے تار پیدا کر لیتی ہیں۔
جالا چِپکنے والے اور خُشک دونوں تاروں پر مشتمل ہوتا ہے۔ ہنرمند مکڑی اپنے جالے کی حد بندی کرنے کے لئے خُشک تار اور اپنے شکار کو پھنسانے کے لئے چِپکنے والے تار اِستعمال کرتی ہے۔ خورد بِین کے نیچے چِپکنے والا تار اپنی انوکھی اور عجیب و غریب کاریگری کے بھید کا اِنکشاف کرتا ہے۔ پہلا یہ کہ یہ لڑی کی طرح ہوتا ہے جس کے سبب سے بغیر ٹوٹے لچک پیدا کر سکتا ہے۔ اور جب یہ کھینچا تانی سے آزاد ہوتا ہے تو اِس لچک کی بدولت اپنی پہلی شکل اِختیار کر لیتا ہے۔ دوسرا یہ کہ یہ تار درحقیقت ایک کھوکھلی ٹیوب کی مانند ہوتی ہے جو چِپکنے والے مادے سے بھری ہوتی ہے، جیسے ہی جالا خُشک ہوتا ہے تازہ گوند یا رطوبت اندر سے رِستی ہے اور لیپ کے اثرات یعنی چِپ چپاہٹ پیدا ہوتی ہے۔
آئیے دیکھتے ہیں کہ ایک مکڑی کِس طرح نیا جالا بُنتی ہے۔ سب سے پہلے مکڑی درخت کی ٹہنی پر مُناسب اُونچائی پر چڑھتی ہے اور جب ایک بار شروع کرنے کا مقام کا اِنتخاب ہو جاتا ہے اور جب بادِنسیم حالات کے عین مطابق چلتی ہے تو وہ ٹہنی کو چھوڑ کر زمین کی طرف نیچے گِر پڑتی ہے اور گرتے گرتے اپنے پیچھے ریشم کا تار چھوڑتی جاتی ہے۔ زمین سے کچھ ہی اُونچائی پر اُس کے جالا بُننے کے عُضو تار کی رفتار کو رُوک دیتے ہیں اور اِس طرح مکڑی اچانک ٹھہر جاتی ہے۔ تب وہ پھلانگ کر وہیں واپس پہنچ جاتی ہے جہاں سے آغاز کِیا تھا، اور چلتے چلتے اپنے پیچھے ریشمی تار چھوڑتی جاتی ہے۔ اور جب اپنا پہلا ٹھکانہ پا لیتی ہے ہَوا میں ریشم کا ایک لمبا سا پھندا لہراتا ہوا نظر آتا ہے۔ اگر مکڑی عقلمندی سے اپنی جگہ کا اِنتخاب کر لیتی تو وہ پھندا جو ہَوا میں لہرایا تھا بہت جلد کسی دوسری ٹہنی کے کسی حِصے میں جا کے چِپک جاتا اور جب وہ ایسا کر لیتا ہے تو مکڑی کے ٹھکانے کی ایک حد قائم ہو جاتی ہے۔ ریشم کے اِس تار پر آتی جاتی ہے، اور پھر بہت سی تاریں بچھاتے ہوئے ایک مضبوط مگر اَن دیکھی تار بن جاتی ہے۔ یہ تار صرف اپنے سِروں پر تقسیم ہوتی ہوئی دِکھائی دیتی ہے، اور اِس طرح وہ تاروں کے لنگر کے مختلف جوڑوں کو مضبوط بناتی ہے۔ اِس سے اگلے مرحلے میں وہ جنگلا بنانے کے لئے لاتعداد عمودی اور پھر اُفقی تِرچھی لکیریں ایک دوسرے کو کاٹتی ہوئی گراتی ہے۔ حتیٰ کہ وہ زیرِ تعمیر جالے کے کسی بھی کونے تک اپنی مرضی سے چل پھر سکتی ہے، اور پھر وہ سائیکل کے پہہیے کی طرح مزید ریشم کی تاریں کھینچتی ہے اور آخرِ کار چکر دار جالا بُننے کی باری آتی ہے جو جالے کو اُس کی خوبصورتی اور مُہلک پن دونوں عطا کرتا ہے، کیونکہ جالا اپنے چِپکنے والے لچھے میں شکار کو پھندے میں پھنسا لیتا ہے۔
مکڑی کے پاس اپنا جالا دوبارہ بنانے کے لئے صرف ایک یا دو دِن کا وقت ہوتا ہے، کیونکہ خراب موسم اور بڑے حشرات و کیڑے مکوڑے اپنا غصہ نکالنے کے لئے اُس پر تباہی مچا دیتے ہیں۔ جب وہ دوبارہ بنانا شروع کرتی ہے تو اپنے آپ کو سوائے لنگروالی تار کے سارے جالے سے نکال لیتی ہے۔
اَب سوال یہ ہے کہ کیا مکڑی صرف جالا بُننے کے لئے ریشم اِستعمال کرتی ہے؟ ہرگز نہیں، بلکہ مکڑیاں جالا بُننے کے ساز و سامان کو زندگی کے دوسرے خاص موقعوں پر بھی اِستعمال کرتی ہیں۔ مثال کے طور پر مادہ مکڑی اپنے انڈوں کے لئے خاصا بڑا ریشمی چھتا سا بناتی ہے جو اُن کو انڈے سینے کے وقت تک محفوظ رکھتا ہے۔
مکڑی کی کچھ اقسام ایسی ہوتی ہیں جن میں نَر مکڑی مادہ مکڑی کے ساتھ مِلاپ کرنے سے پہلے اُس ریشم سے لپٹتی ہے، شائد اپنے آپ کو شدید بھوک سے مِٹانے کے لئے۔ بہت سی نئی پیدا ہونے والی مکڑیاں اپنی جالا بُننے کی قابلیت کو اِستعمال کرتے ہوئے اپنے آپ کو عملی زندگی میں داخل کر لیتی ہیں۔
دِن کے وقت جب سورج اپنی پوری آب و تاب سے چمک رہا ہوتا ہے، اور گرم ہَوا اُوپر کی جانب اُٹھ رہی ہوتی ہے تو مکڑیاں اپنی قابلیت اور سکت کے لحاظ سے اِنتہائی بلندی پر چڑھتی ہیں، اور ریشم کے تار بُنتے بُنتے شاخ پر سے اپنی گرفت ڈھیلی کر دیتی ہیں اور جُھولتے ہوئے نئے گھر میں داخل ہو جاتی ہیں۔ غبارے کی اُڑتی ہوئی مکڑیاں کِس طرح جانتی ہیں کہ اُن کو یہ سب کام کیسے کرنا ہے؟ مکڑیاں کِس طرح اپنا جالا بُننا سیکھتی ہیں؟ اِس کا جواب یہ ہے کہ اُن کو کوئی نہیں سِکھاتا بلکہ وہ پیدائشی طور پر یہ سب جانتی ہیں۔
ہم اِس علم کو جبلت کا نام دیتے ہیں، اور اِس طرح ہم قدرت کے عجیب و غریب معجزے کو نظرانداز کر دیتے ہیں۔ وہی خالق جس نے مکڑیوں کو جالا بُننے کی قابلیت دی ہے، وہی اُنہیں پیدائشی علم بھی بخشتا ہے کہ اُسے کیسے اِستعمال کریں۔ ہمارا خالق و مالک یعنی خدا اپنی ہر مخلوق کو وہ سب کچھ عطا کرتا ہے جس کی اُنہیں اپنا مقصدِ زندگی پورا کرنے کے لئے ضرورت ہوتی ہے، اور یہ بنی نوع اِنسان پر بھی صادق آتی ہے۔ ہمیں بھی اپنا مقصدِ حیات پورا کرنے کے لئے اپنے خالق سے طاقت، ذہانت، قابلیت اور قوت ملتی ہے۔ اِنسان جبلت کے تابع نہیں جس کی ہدایت سے وہ زندگی بسر کرتا ہے بلکہ وہ خدا سے حکمت و دانش حاصل کر کے اپنا مقصدِ زندگی حاصل کرتا ہے، کیونکہ خالق نے ہمیں اِسی طرح تخلیق کِیا ہے، ’’اور خدا نے اِنسان کو اپنی صورت پر پیدا کِیا۔ خدا کی صورت پر اُس کو پیدا کِیا، نَر و ناری اُن کو پیدا کِیا۔‘‘ (پیدائش ۱:۲۷)
اگر ہم اپنے اندر جھانکنے کی کوشش کریں تو ہمیں معلوم ہو گا کہ ہمارے اندر بھی ایک جبلی تحریک ہے جس سے ہم خدا کو تلاش کرتے ہیں اور اپنے مقصد کی تکمیل، ابدی آرام اور ابدی زندگی اُس میں پاتے ہیں۔
بائبل مقدس میں ایوب کی کتاب ۸ باب اُس کی ۸ سے ۱۵ آیت میں لکھا ہے، ’’ذرا پچھلے زمانے کے لوگوں سے پوچھ اور جو کچھ اُن کے باپ دادا نے تحقیق کی ہے اُس پر دھیان کر۔ (کیونکہ ہم تو کل کے ہیں اور کچھ نہیں جانتے اور ہمارے دِن زمین پر سائے کی مانند ہیں) کیا وہ تجھے نہ سکھائیں گے اور نہ بتائیں گے اور اپنے دِل کی باتیں نہیں کریں گے؟ کیا ناگر موتھا بغیر کیچڑ کے اُگ سکتا ہے؟ کیا سَرکنڈا بغیر پانی کے بڑھ سکتا ہے؟ جب وہ ہرا ہی ہے اور کاٹا بھی نہیں گیا، تَو بھی اور پودوں سے پہلے سُوکھ جاتا ہے۔ ایسی ہی اُن سب کی راہیں ہیں جو خدا کو بھول جاتے ہیں۔ بے خدا آدمی کی اُمید ٹوٹ جائے گی۔ اُس کا عتماد جاتا رہے گا اور اُس کا بھروسہ مکڑی کا جالا ہے۔ وہ اپنے گھر پر ٹیک لگائے گا لیکن وہ کھڑا نہ رہے گا۔ وہ اُسے مضبوطی سے تھامے گا، پر وہ قائم نہ رہے گا۔‘‘(ایوب ۸:۸-۱۵)
آئیے! آج اپنی حالت پر غور کریں کہ کہیں ہم بھی خدا سے دُور تو نہیں؟ کہیں ہم بھی اُس کی راہیں بھول تو نہیں گئے؟ اور اگر واقعی ایسا ہے تو کیوں نہ کائنات پر ایک بھرپور نظر ڈالیں کہ کِس طرح ہر چیز اپنے خالق کی مرضی کے عین مطابق زندگی کے اعلیٰ مقصد کی تکمیل کر رہی ہے۔
مَکڑی کا جالا
Posted in وجُودِ اِلٰہی