جب ہم کسی آفت یا مصیب کی لپیٹ میں آ کر دُکھ تکلیف اُٹھاتے ہیں، جب ہمارا گھر زلزلے نے نیست و نابود کر دیا ہو، یا سیلاب کی طوفانی لہریں بہا لے گئی ہوں، تو قدرتی بات ہے کہ ہم پوچھیں گے کہ، ’’میرے ساتھ یہ کیوں ہو رہا ہے؟ کیا خدا یہ سب دیکھ نہیں رہا؟ کیا اُس کو میرا احساس ہے کہ میرے ساتھ یہ کیا ہو رہا ہے؟ـ‘‘
یہ سوال نئے نہیں ہیں، لوگوں نے ہر زمانے میں یہ سوال پوچھے ہیں، بائبل مقدس بتاتی ہے کہ جب اسرائیل کے لوگ دُکھ تکلیف سہہ رہے تھے تو ایک موقع پر کیا ہُوا، ’’اور خداوند کا فرشتہ اُسے (یعنی جِدعون کو) دِکھائی دے کر اُس سے کہنے لگا کہ اَے زبردست سُورما! خداوند تیرے ساتھ ہے۔ جِدعون نے اُس سے کہا، اَے میرے مالک! اگر خداوند ہی ہمارے ساتھ ہے تو ہم پر یہ سب حادثے کیوں گزرے…‘‘ (قضاۃ ۶:۱۲-۱۳)
جِدعون کے سوال نے خدا کی طبیعت کے بارے میں کچھ اہم و ضروری غور طلب باتوں کی نشاندہی کی ہے۔ کیونکہ آفتیں اور مصیبتیں آتی رہی ہیں، کچھ لوگوں نے یہ نتیجہ نکالا کہ خدا ہم سے پیار نہیں کرتا، یا اُس کے پاس اِتنی طاقت و اِختیار نہیں کہ وہ اِن آفات کو روک سکے مگر بائبل مقدس ہمیں یقین دِلاتے ہوئے کہتی ہے کہ خدا نہ صرف قادرِ مطلق ہے بلکہ وہ ہم سے پیار بھی کرتا ہے۔ مثال کے طور پر پولس رسول ہمیں بتاتا ہے کہ، ’’… خدا نے فرمایا ہے کہ مَیں اُن میں بسوں گا اور اُن میں چلوں پھروں گا اور مَیں اُن کا خدا ہوں گا اور وہ میری اُمت ہوں گے۔ اِس واسطے خداوند فرماتا ہے کہ اُن میں سے نکل کر الگ رہو اور ناپاک چیز کو نہ چھوئو تو مَیں تم کو قبول کر لوں گا اور تمہارا باپ ہوں گا اور تم میرے بیٹے بیٹیاں ہو گے۔‘‘ (۲-کرنتھیوں ۶:۱۶-۱۸)
اگر خدا ہمیں پیار بھی کرتا ہے اور اُس کے پاس طاقت و اِختیار بھی ہے کہ وہ آفت، مصیبت، رنج و غم کو ٹال دے تو پھر ہم دُکھ تکلیف سے کیوں گزرتے ہیں؟ شائد دُکھ تکلیف اور رنج و غم سہنا ہمارے لئے ضروری ہے۔ ایک وجہ جو خدا نے حبقوق نبی کو یہ دی کہ شائد ہمارے لئے ضروری ہے کہ آفت و مصیبت برداشت کریں تاکہ خدا اپنے عظیم مقصد و اِرادے کو پورا کر سکے، خدا کو ہم سے اور ہماری صورتِ حال سے کوئی غرض نہیں، وہ تو ساری دُنیا کے معاملات پر نظر رکھے ہوئے ہے، اصل سوال یہ نہیں ہم دکھ مصیبت کیوں برداشت کریں بلکہ یہ کہ جب ہم آفت و تکلیف سے گزر رہے ہوتے ہیں تو کیا ہمارا ایمان خدا پر ہوتا ہے، ہم اکثر یہ حقیقت سمجھ نہیں سکتے، لیکن اگر ہمارا خدا پر مضبوط ایمان ہے تو ہمیں پورا یقین و بھروسہ ہونا چاہیے کہ خدا ہمیں پیار کرتا اور ہماری دیکھ بھال کرتا ہے خواہ کیسے ہی حالات کیوں نہ ہوں۔
اِس کے باوجود کہ اِسرائیلی قوم کو مصیبتوں اور آفتوں کا سامنا تھا مگر پھر بھی حبقوق نبی کا یقین و بھروسہ خدا پر تھا۔ ایک بات جس نے اُس کی مصیبت کی گھڑی میں مدد کی یہ تھی کہ وہ خوب جانتا تھا کہ خدا نے ماضی میں اُن کے لئے کِتنے عجیب کام کِئے ہیں۔ ۳ باب کی ۱۳ آیت میں اِس بارے لکھا ہے، ’’… تُو اپنے لوگوں کی نجات کی خاطر نکلا…‘‘ (حبقوق ۳:۱۳)
آیت ۱۳ ہی میں حبقوق نبی اِسرائیلیوں کو خدا کے ’ممسُوح‘ کہتا ہے، دوسرے لفظوں میں یہ کہ خدا نے اُن کو کسی خاص مقصد و کام کے لئے الگ کر رکھا ہے، کیا آپ کو پتہ ہے کہ مسیح کے پیروکاروں کو بھی خدا کے ممسُوح کہتے ہیں؟ ۲-کرنتھیوں پہلا باب ۲۱ سے ۲۲ آیت میں لکھا ہے، ’’جو ہم کو تمہارے ساتھ مسیح میں قائم کرتا ہے، اور جس نے ہم کو مسح کِیا وہ خدا ہے، جس نے ہم پر مُہر بھی کی اور بَیعانہ میں رُوح کو ہمارے دِلوں میں دیا۔‘‘ (۲-کرنتھیوں ۱:۲۱-۲۲)
اِس کا مطلب یہ ہے کہ اگر آپ مسیح کے پیروکار ہیں تو آپ کی زندگی میں خدا کا ایک خاص مقصد و اِرادہ ہے۔ اُس نے آپ کو مستقبل کی یقین دہانی بھی کروائی ہے کہ کیا ہونے والا ہے۔ لہذا آپ مکمل یقین و بھروسہ رکھیں کہ آج کیسے ہی سخت اور مشکل ترین حالات کیوں نہ ہوں، خدا ہر قدم پر مدد و راہنما ہو گا۔ فلپیوں پہلا باب ۶ آیت میں لکھا ہے، ’’مجھے اِس بات کا بھروسہ ہے کہ جس نے تم میں نیک کام شروع کِیا ہے وہ اُسے یسوع مسیح کے دِن تک پورا کر دے گا۔‘‘ (فلپیوں ۱:۶)
حبقوق نبی کا بھروسہ اور یقین خدا پر تھا کیونکہ وہ جانتا تھا کہ اُس نے ماضی میں اُن کے لئے کِتنے عجیب اور انوکھے کام کِئے ہیں، مگر شائد آپ سوچ رہے ہیں کہ ’’اُو ہاں مَیں نے بائبل میں ایسی کئی کہانیاں پڑھی ہیں لیکن یہ تو بہت پہلے کی باتیں ہیں، اُن کا مجھ سے کیا تعلق ہے۔‘‘ تو آئیں ہم آپ کو اِس کا عملی ثبوت دیں، اگر آپ مسیح کے پیروکار ہیں تو ممکن ہے کہ آپ بائبل کی کہانیوں کے ساتھ کوئی تعلق واسطہ محسوس نہ کریں، مگر پھر بھی آپ اِتنا تو جانتے ہی ہیں کہ خدا نے آپ کی زندگی میں کیا کِیا ہے؟ کیا آپ کو یاد ہے کہ مسیح کے پاس آنے سے پہلے آپ کیا تھے؟ کیا آپ مسیح کو زندگی دینے کے بعد اپنے اندر کوئی تبدیلی یا فرق محسوس کرتے ہیں؟ اگر آپ تھوڑا سا پیچھے مڑ کے دیکھیں تو آپ کو یاد آ جائے گا کہ خدا نے آپ کو کِس دلدل سے نکالا ہے، اور جب آپ کو شیطان کی غلامی سے خداوند کی نجات تک کا سفر یاد آ جائے تو حبقوق نبی کی طرح آپ کا خدا پر اِیمان و بھروسہ ٹھوس و مضبوط ہو جائے گا۔
کیونکہ حبقوق نبی نے اپنی پچھلی حالت کو یاد کِیا کہ خدا نے اُس کی زندگی میں کِتنے عجیب اور انوکھے کام کِئے ہیں تو وہ اِس قابل ہُوا کہ اگلا قدم اُٹھائے، ۳ باب کی ۱۶ آیت میں وہ لکھتا ہے کہ وہ ’’صبر سے مُنتظر‘‘ ہو گا، جب ہم خدا پر یقین و بھروسہ کرتے ہیں تو اِس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ ہم اُس کی ہدایات پر عمل کرتے ہیں۔ ۲ باب کی ۳ آیت میں خدا نے فرمایا، ’’کیونکہ یہ رُویا ایک مُقررہ وقت کے لئے ہے، یہ جلد وُقوع میں آئے گی اور خطا نہ کرے گی، اگرچہ اِس میں دیر ہو تو بھی اِس کا مُنتظر رہ، کیونکہ یہ یقینا وُقوع میں آئے گی، تاخیر نہ کرے گی۔‘‘
خدا نے حبقوق سے کہا کہ وہ صبر سے اِنتظار کرے، اور حبقوق نے کہا کہ ہاں وہ کرے گا۔ یہ ایک بہت ہی اہم اور ضروری تصور ہے۔ خدا اپنے وقت پر سب کچھ ٹھیک کر دے گا، وہ اپنے لوگوں کو بچا لے گا، مگر نجات اپنے مُقررہ وقت پر وُقوع میں آئے گی۔ مگر اکثر ہم صبر سے اِنتظار کرنا پسند نہیں کرتے اور جلد بازی کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ ہم بے چین و بے قرار ہو جاتے ہیں، لیکن لازم ہے کہ ہم صبر کرنا سیکھیں، اور جب ہم اِنتظار کر رہے ہوں تو ضروری ہے کہ وہ سارے کام کرتے رہیں جن کا خدا نے ہمیں کرنے کا حکم دیا ہے۔ ہمیں یاد رکھنا چاہے کہ پطرس کے پہلے خط کے ۵ باب کی ۶ سے ۷ آیت میں کیا لکھا ہے، ’’پس خدا کے قوی ہاتھ کے نیچے فروتنی سے رہو تاکہ وہ تمہیں وقت پر سَربلند کرے، اور اپنی ساری فکر اُسی پر ڈال دو کیونکہ اُس کو تمہاری فکر ہے۔‘‘
۳ باب کی ۱۷ سے ۱۸ آیت میں حبقوق نبی ایمان کی مضبوطی کا ایک ایسا بے مثال بیان ہے جس کا ساری بائبل میں جواب نہیں، ’’اگرچہ اِنجیر کا درخت نہ پُھولے، اور تاک میں پھل نہ لگے، اور زیتون کا حاصل ضائع ہو جائے، اور کھیتوں میں کچھ پیداوار نہ ہو، اور بھیڑ خانہ سے بھیڑیں جاتی رہیں، اور طویلوں میں مویشی نہ ہوں، تو بھی مَیں خداوند سے خوش رہوں گا۔‘‘
آپ نے دیکھا کہ حبقوق نبی اپنا سارا مال و دولت فنا ہو جانے اور امیری سے غریبی میں چلے جانے، بھوک و پیاس، تنگ دستی، بے کسی، بے چارگی، لاچاری، تباہی و بربادی کے باوجود وہ کہتا ہے کہ خواہ کیسے بھی حالات کیوں نہ جائیں، خداوند میں خوش رہوں گا۔
ایسا کیسے ممکن ہے؟ کیسے ایک شخص جو جنگ کی تباہ کاریوں اور قحط و سیلاب کی بربادی کے باوجود حبقوق کی طرح خوشی و کامرانی سے سَرشار رہ سکتا ہے؟ حبقوق نبی ہمیں اگلی آیت میں اِس کا جواب یوں دیتا ہے، ’’خداوند میری توانائی ہے۔‘‘ (۳:۱۹)
خدا ہی ہے جو مسیح کے پیروکاروں کو مشکلات اور تکلیفوں کے باوجود قوت و توانائی بخشتا ہے، جب ہم خدا پر پورے دِل سے ایمان و بھروسہ کرتے ہیں کہ خواہ کچھ بھی ہو جائے آخرِکار فتح ہماری ہی ہو گی، خواہ کیسے بدترین حالات کیوں نہ ہوں وہ ہمیں پھر خوشحال و سرسبز کرے گا، پولس رسول لکھتا ہے، ’’ہم کو معلوم ہے کہ سب چیزیں مِل کر خدا سے محبت رکھنے والوں کے لئے بھلائی پیدا کرتی ہیں یعنی اُن کے لئے جو خدا کے اِرادے کے مُوافق بُلائے گئے ہیں۔‘‘ (رومیوں ۸:۲۸)
کیونکہ خدا مسیح کے پیروکاروں کے لئے بُرے سے بُرے حالات میں بھی ہمیشہ اچھا ہی کرتا ہے، پولس رسول کہتا ہے، ’’کون ہم کو مسیح کی محبت سے جُدا کرے گا؟ مصیبت یا تنگی یا ظلم یا کال یا ننگاپن یا خطرہ یا تلوار؟ چنانچہ لکھا ہے کہ ’’ہم تیری خاطر دِن بھر جان سے مارے جاتے ہیں، ہم تو ذبح ہونے والی بھیڑوں کے برابر گِنے گئے، مگر اِن سب حالتوں میں اُس کے وسیلہ سے جس نے ہم سے محبت کی ہم کو فتح سے بھی بڑھ کر غلبہ حاصل ہوتا ہے، کیونکہ مجھ کو یقین ہے کہ خدا کی جو محبت ہمارے خداوند مسیح یسوع میں ہے، اُس سے ہم کو نہ موت جُدا کر سکے گی نہ زندگی، نہ فرشتے نہ حکومتیں، نہ حال کی نہ اِستقبال کی چیزیں، نہ قدرتیں نہ بلندی نہ پستی نہ کوئی اَور مخلوق۔‘‘ (رومیوں ۸:۳۵-۳۹)
ہمارے حالات کِتنے بھی خراب کیوں نہ ہوں، ہم کِتنے ہی مصیبتوں اور آفتوں کے نیچے دبے ہوئے کیوں نہ ہوں، ہمیں خدا کی لازوال محبت سے کوئی جُدا نہیں کر سکتا، لیکن اَب سوال یہ ہے کہ کیا ہم دُکھ تکلیف سے گھبرا کر خدا سے منہ موڑ لیں گے یا ہم اُس پر یقین و بھروسہ رکھ کر مسیح کو مدد کیلئے پکاریں گے؟
دوستو، بہنو اور بھائیو! مشکلات، تکلیفیں، آفتیں اور مصیبتیں تو آتی رہیں گی، خواہ ہم مسیح کی پیروی کریں یا نہ کریں، مگر خدا کا یہ وعدہ کہ وہ خراب ترین حالات میں بھی ساتھ رہے اور نکال لے گا، صرف اور صرف مسیح کے پیروکاروں کے لئے ہے، ہم سب تکلیفیں اور مصیبتیں سہتے ہیں، لیکن اِس سے بھی بُرا یہ ہو گا کہ ہم اُن میں پھنسے ہی رہیں اور کوئی ہمیں بچانے والا نہ ہو، اور ہماری مشکلوں اور تکلیفوں سے کوئی اچھائی پیدا نہ ہو۔