مذہب کیا ہے؟ شائد کچھ کہیں کہ یہ مذہب ہی ہے جو ہمارا خدا کے ساتھ رشتہ و تعلق قائم رکھتا ہے، کچھ کہیں گے کہ کسی خاص تعلیم و عقیدے پر اِیمان رکھنا مذہب ہے، اور شائد کچھ کہیں کہ کچھ خاص رسم و رواج یعنی روزہ رکھنا اور دُعا نماز ادا کرنا مذہب ہے۔ لیکن بائبل مقدس کے مطابق مذہب خدا کو ماننے اور جاننے سے کہیں زیادہ ہے، مذہب محض چند چیزوں پر اِیمان رکھنا نہیں، رسم و رواج کی پیروی و پابندی کرنے سے کہیں زیادہ ہے۔ ہمارا مذہب ہمارے طرزِ زندگی کی عکاسی کرتا ہے کہ ہم روزمرہ زندگی کیسے گزارتے ہیں اور ددسروں کے ساتھ ہمارا رویہ اور سلوک کیسا ہے۔ پاک کلام میں لکھا ہے، ’’ہمارے خدا ور باپ کے نزدیک خالِص اور بے عیب دینداری یہ ہے کہ یتیموں اور بیوائوں کی مُصیبت کے وقت اُن کی خبر لیں اور اپنے آپ کو دُنیا سے بیداغ رکھیں۔‘‘ (یعقوب ۱:۲۷)
سچے مذہب میں سماجی ذمہ داری کا تصور ویسا ہی ہے جیسا سینکڑوں سال پہلے خدا نے یسعیاہ نبی کے ذریعہ اِسرائیل کی قوم کو دیا، لکھا ہے، ’’وہ روز بروز میرے طالب ہیں اور اُس قوم کی مانند جس نے صداقت کے کام کِئے اور اپنے خدا کے احکام کو ترک نہ کِیا میری راہوں کو دریافت کرنا چاہتے ہیں، وہ مجھ سے صداقت کے احکام طلب کرتے ہیں، وہ خدا کی نزدیکی چاہتے ہیں، وہ کہتے ہیں ہم نے کِس لئے روزے رکھے جبکہ تُو نظر نہیں آتا اور ہم نے کیوں اپنی جان کو دُکھ دیا جبکہ تُو خیال میں نہیں لاتا؟ دیکھو تم اپنے روزہ کے دِن میں اپنی خوشی کے طالب رہتے ہو اور سب طرح کی سخت محنت لوگوں سے کراتے ہو، دیکھو تم اِس مقصد سے روزہ رکھتے ہو کہ جھگڑا رگڑا کرو اور شرارت کے مُکے مارُو، پس اَب تم اِس طرح کا روزہ نہیں رکھتے ہو کہ تمہاری آواز عالمِ بالا پر سُنی جائے، کیا یہ وہ روزہ ہے جو مجھکو پسند ہے؟ ایسا دِن کہ اُس میں آدمی اپنی جان کو دُکھ دے اور اپنے سَر کو جھائو کی طرح جُھکائے اور اپنے نیچے ٹاٹ اور راکھ بچھائے؟ کیا تُو اِس کو روزہ اور ایسا دِن کہے گا جو خداوند کا مقبول ہو؟ کیا وہ روزہ جو مَیں چاہتا ہوں یہ نہیں کہ ظلم کی زنجیریں توڑیں اور جُوئے کے بندھن کھولیں اور مظلوموں کو آزاد کریں بلکہ ہر ایک جُوئے کو توڑ ڈالیں؟ کیا یہ نہیں کہ تُو اپنی روٹی بھوکوں کو کِھلائے اور مسکینوں کو جو آوارہ ہیں اپنے گھر میں لائے اور جب کسی کو ننگا دیکھے تو اُسے پہنائے اور تُو اپنے ہم جنس سے رُوپوشی نہ کرے؟‘‘ (یسعیاہ ۵۸:۲-۷)
مصیبت کے دِن اپنے مال و دولت سے محتاجوں اور ضرورتمندوں کی مدد کرنا زیادہ اہم و ضروری ہے، مصیبت و آفت کا دِن دُکھ اور تکلیف کا دِن ہوتا ہے نہ کہ خوشحالی اور جشن کا، ایسے ہی وقت میں پتہ چلتا ہے کہ ہمارا مذہب خالص و سچا ہے یا نہیں۔ کبھی کبھی خدا زلزلے، آگ، سیلاب، قحط وغیرہ اِس لئے لاتا ہے کہ دیکھے کہ کون صرف نام کا مذہبی ہے اور کون سچا ہے اور دِل کی گہرائی سے اُس کی خدمت کرتا ہے، اگر مسیح کی رُوح ہمارے اندر ہے تو ہمارے دِل میں دوسروں کے لئے ویسا ہی درد و رحم ہو گا جیسا مسیح کے اندر تھا، جب آفت و مصیبت آتی ہے تو ہم محتاجوں اور ضرورتمندوں کی مدد کرنا چاہتے ہیں، اِس کے باوجود کہ ہم خود دُکھ تکلیف اور تنگی و نقصان اُٹھا رہے ہیں، ہم پھر بھی دوسروں کی مدد کرنے کے لئے بے چین و بے قرار ہوں گے، ہمارے پاس جو کچھ بھی ہے اُس سے ہم دوسروں کی تکلیف اور پریشانی کم کرنے کی کوشش کریں گے۔
اِس سے ہمارے دِل میں ایک اہم سوال اُٹھتا ہے، ہم کیسے دوسروں کی مدد کر سکتے ہیں اگر ہم خود ضرورتمند و محتاج ہیں؟ ہم دوسروں کو کیسے دے سکتے ہیں جبکہ ہمارے اپنے پاس کچھ نہیں؟ پولس رسول یونان کے شہر کورنتھس میں یروشلیم کے رہنے والے غریبوں اور محتاجوں کی مدد کے لئے چندہ اِکٹھا کر کے اِس مسئلے کو حل کر دیتا ہے۔ وہ کہتا ہے کہ خدا یہ نہیں دیکھتا کہ دینے والے کا تحفہ کِتنا بڑا اور کِتنا قیمتی ہے بلکہ وہ دِل کو دیکھتا ہے کہ دیا کِس نیت سے ہے، لکھا ہے، ’’اگر نیت ہو تو خیرات اُس کے مُوافق مقبول ہو گی جو آدمی کے پاس ہے نہ اُس کے مُوافق جو اُس کے پاس نہیں۔‘‘ (۲-کرنتھیوں ۸:۱۲)
یہ مسیح کی تعلیم کے عین مطابق ہے، پاک کلام میں لکھا ہے، ’’پھر وہ ہیکل کے خزانہ کے سامنے بیٹھا دیکھ رہا تھا کہ لوگ ہیکل کے خزانہ میں پیسے کِس طرح ڈالتے ہیں، اور بُہتیرے دولتمند بہت کچھ ڈال رہے تھے، اِتنے میں ایک کنگال بیوہ نے آ کر دو دمڑیاں یعنی ایک دھیلا ڈالا، اُس نے اپنے شاگردوں کو پاس بُلا کر اُن سے کہا، مَیں تم سے سچ کہتا ہوں کہ جو ہیکل کے خزانہ میں ڈال رہے ہیں اِس کنگال بیوہ نے اُن سب سے زیادہ ڈالا، کیونکہ سبھوں نے اپنے مال کی بُہتات سے ڈالا مگر اِس نے اپنی ناداری کی حالت میں جو کچھ اِس کا تھا یعنی اپنی ساری روزی ڈال دی۔‘‘ (مرقس ۱۲:۴۱-۴۴)
ہمارے ہدیے خواہ کِتنے ہی چھوٹے اور معمولی کیوں نہ ہوں، خدا کے ہاں قابلِ قبول ہیں جب دِل سے دیئے جائیں، مگر سوال یہ ہے کہ اِتنا چھوٹا سا ہدیہ کسی کی کیسے مدد کرے گا؟
قدرتی آفت یا تباہی و بربادی کے وقت ہماری دینے کی طاقت ضرورت کے مقابلے میں بہت ہی کم ہو جاتی ہے۔ اِس سوال کا ایک جواب تو یہ ہے کہ ایک شخص کے بس کی بات نہیں کہ مصیب و آفت کے وقت سارے ضرورتمندوں اور حاجتمندوں کی مدد کر سکے، ہاں، ایسا اُسی وقت ممکن ہو سکتا ہے کہ سب مِل کر تھوڑا تھوڑا اِکٹھا کر کے، مصیبت زدہ لوگوں کی مدد کریں، پولس رسول نے کلیسیا کو خط لکھ کر کہا کہ یروشلیم میں اپنے بہن بھائیوں کی مدد کریں، ’’یہ نہیں کہ اَوروں کو آرام مِلے اور تم کو تکلیف ہو، بلکہ برابری کے طور پر اِس وقت تمہاری دولت سے اُن کی کمی پوری ہو تاکہ اُن کی دولت سے بھی تمہاری کمی پوری ہو اور اِس طرح برابری ہو جائے، چنانچہ لکھا ہے کہ ’’جس نے بہت جمع کِیا اُس کا کچھ زیادہ نہ نکلا اور جس نے تھوڑا جمع کِیا اُس کا کچھ کم نہ نکلا۔‘‘ (۲-کرنتھیوں ۸:۱۳-۱۵)
اگرچہ ہمارے پاس دینے کو کچھ زیادہ نہیں مگر پھر بھی اگر سارے مِل کر اپنی حیثیت کے مطابق تھوڑا تھوڑا دیں تو بوجھ بانٹا جا سکتا ہے۔
اِس سوال کا دوسرا جواب کہ ہم کیسے کسی کی مدد کریں جبکہ خود ہمارے پاس بہت ہی کم ہے، یہ ہے کہ خدا ہمارے تھوڑے سے میں بھی عظیم و جلالی کام کر سکتا ہے۔ ہمارا چھوٹا سا تحفہ ایک بیج ہے جو پھلتا پھولتا ہے اور بہت سے بیج پیدا کرتا ہے، پولس رسول لکھتا ہے، ’’بات یہ ہے کہ جو تھوڑا بوتا ہے وہ تھوڑا کاٹے گا اور جو بہت بوتا ہے وہ بہت کاٹے گا، جس قدر ہر ایک نے اپنے دِل میں ٹھہرایا ہے اُسی قدر دے نہ دریغ کر کے اور نہ لاچاری سے کیونکہ خدا خوشی سے دینے والے کو عزیز رکھتا ہے… پس جو بونے والے کے لئے بیج اور کھانے والے کے لئے روٹی بہم پہنچاتا ہے، وہی تمہارے لئے بیج بہم پہنچائے گا اور اُس میں ترقی دے گا اور تمہاری راستبازی کے پھلوں کو بڑھائے گا۔‘‘ (۲-کرنتھیوں ۹:۶-۱۰)
ہم نے دیکھا کہ مصیبت اور آفت کے وقت ہمیں ایک دوسرے کی مدد کرنا چاہیے اِس کے باوجود کہ ہمارے پاس دینے کو تھوڑا ہے۔ مگر اَب سوال یہ ہے کہ ہم کِس کی مدد کریں گے؟ ہم کِس کو دیں؟ اور کب تک مدد کرتے رہیں؟ پولس رسول اِن سوالوں کا جواب دیتے ہوئے کہتا ہے، ’’ہم نیک کام کرنے میں ہمت نہ ہاریں کیونکہ اگر بے دِل نہ ہوں گے تو عین وقت پر کاٹیں گے، پس جہاں تک موقع مِلے سب کے ساتھ نیکی کریں خاص کر اہلِ ایمان کے ساتھ۔‘‘ (گلتیوں ۶:۹-۱۰)
لہذا اِس کا مطلب یہ ہُوا کہ ہم جب تک موقع مِلے مدد کرتے رہیں، بِلااِمتیاز ہر کسی کی مدد کریں، خواہ وہ کسی بھی قوم، کسی بھی رنگ ونسل اور مذہب کا کیوں نہ ہو، یہی وجہ ہے کہ مسیح کے پیروکار مصیبت و آفت میں پھنسے ہوئے لوگوں کی سب سے پہلے جا کر مدد کرتے ہیں، یہی وجہ ہے کہ مسیح کے پیروکار رنگ و نسل، ذات پات، مذہب و دھرم کی پرواہ کِئے بغیر ہر کسی کی طرف مدد و رحمدلی کا ہاتھ بڑھاتے ہیں، مگر ہم دوسرے کی مدد کرتے ہوئے اپنے محتاج و ضرورتمند مسیحی بہن بھائیوں کو بھی مت بھولیں، کیونکہ سب سے پہلے اُن کا حق ہے کہ ہم اُن کی دیکھ بھال کریں۔
مسیح یسو ع نے سامری کی تمثیل کے ذریعہ واضح کِیا کہ ہم کِن لوگوں کی مدد کریں، یہودی لوگ سامریوں کو اچھی نظر سے نہیں دیکھتے تھے، نہ صرف اُن کے خون میں مِلاوٹ تھی بلکہ وہ اُن کو بِدعتی بھی سمجھتے تھے، لکھا ہے، ’’اور دیکھو ایک عالمِ شرع اُٹھا اور یہ کہہ کر اُس کی آزمایش کرنے لگا کہ اَے اُستاد! مَیں کیا کروں کہ ہمیشہ کی زندگی کا وارث بنوں؟ اُس نے اُس سے کہا توریت میں کیا لکھا ہے؟ تُو کِس طرح پڑھتا ہے؟ اُس نے جواب میں کہا کہ خداوند اپنے خدا سے اپنے سارے دِل اور اپنی ساری جان اور اپنی ساری طاقت اور اپنی ساری عقل سے محبت رکھ اور اپنے پڑوسی سے اپنے برابر محبت رکھ، اُس نے اُس سے کہا تُو نے ٹھیک جواب دیا، یہی کر تو تُو جیئے گا، مگر اُس نے اپنے تئیں راستباز ٹھہرانے کی غرض سے یسوع سے پوچھا پھر میرا پڑوسی کون ہے؟ یسوع نے جواب میں کہا کہ ایک آدمی یروشلیم سے سے یریحو کی طرف جا رہا تھا کہ ڈاکوئوں میں گِھر گیا، اُنہوں نے اُس کے کپڑے اُتار لئے اور مارا بھی اور ادھمئوا چھوڑ کر چلے گئے، اِتفاقاً ایک کاہن اُسی راہ سے جا رہا تھا اور اُسے دیکھ کر کترا کر چلا گیا، اِسی طرح ایک لاوی اُس جگہ آیا، وہ بھی اُسے دیکھ کر کترا کر چلا گیا، لیکن ایک سامری سفر کرتے کرتے وہاں آ نکلا اور اُسے دیکھ کر اُس نے ترس کھایا، اور اُس کے پاس آ کر اُس کے زخموں کو تیل اور مَے لگا کر باندھا اور اپنے جانور پر سوار کر کے سرای میں لے گیا اور اُس کی خبرگیری کی، دوسرے دِن دو دِینار نکال کر بھٹیارے کو دِئے اور کہا اِس کی خبرگیری کرنا اور جو کچھ اِس سے زیادہ خرچ ہو گا مَیں پھر آ کر تجھے ادا کر دوں گا، اِن تینوں میں سے اُس شخص کا جو ڈاکوئوں میں گِھر گیا تھا تیری دانست میں کون پڑوسی ٹھہرا؟ اُس نے کہا وہ جس نے اُس پر رحم
کِیا، یسوع نے اُس سے کہا جا، تُو بھی ایسا ہی کر۔‘‘ (لوقا ۱۰: ۲۵-۳۶)
جس طرح ڈاکوئوں کے ہاتھوں لٹنے والے کا سامری ایک حقیقی پڑوسی تھا، اِس کے باوجود کہ وہ ایک مختلف نسل اور مذہب کا تھا، اُسی طرح ہمیں بھی چاہیے کہ اگر موقع مِلے تو دوسروں کی مدد کرنے سے باز نہ رہیں۔
دوستو، بہنو اور بھائیو! خدا نہ کرے اگر پھر کبھی قدرتی آفت اور مصیبت آن پڑے تو کیا آپ اپنے سے کم خوش قسمت لوگوں کی مدد کرنے کو تیار ہوں گے؟