اکثر ہم ایسے شخص کے لئے جو ہر وقت اپنے کام میں اِدھر اُدھر بھاگتا دوڑتا رہے، اور اپنے فرائضِ منصبی کی بجاآوری میں ہمہ تن مصرُوف رہے، کہتے ہیں کہ فُلاں شخص تو شہد کی مکھی کی طرح کام میں لگا رہتا ہے۔ بِلاشک و شبہ شہد کی مکھیاں ہیں بھی اِسی طرح۔ وہ اپنی طاقت کا بغیر کسی رکاوٹ کے مُسلسل مظاہرہ کرتی ہیں، یہاں تک کہ کام کرتے کرتے اپنی جان قربان کر دیتی ہیں۔
کارکن مکھیاں اپنی چُستی کے مصرُوف دِنوں میں صرف تقریباً چھ ہفتے زندہ رہتی ہیں، لیکن سوال یہ ہے کہ اِن کے اندر اپنے آپ کو اِسقدر مصرُوف رکھنے کی خصوصیت کب اور کیسے پیدا ہوئی؟ یقینا یہ اُنہیں اپنے ماں باپ سے وِرثہ میں نہیں مِلی۔ شہد کی مکھیوں کی ماں یعنی ملِکہ نہ تو رَس کا ایک قطرہ اور نہ ہی کبھی پھولوں کے زیرے کا ایک ذرہ بھی چھتے میں نہیں لاتی۔ اِسی طرح نَر مکھی یعنی مکھیوں کا باپ بھی بس بے فکری و کاہلی کی زندگی گزارتا ہے۔ اِن دونوں کا شہد سے صرف کھانے کی حد تک ہی واسطہ ہوتا ہے۔ ملِکہ درحقیقت سُست و کاہل نہیں ہوتی کیونکہ وہ روزانہ تقریباً دو ہزار تک انڈے دینے میں مصرُوف رہتی ہے۔ نَر مکھی بھی جنسی مِلاپ کے دِنوں میں چھتے کی زندگی میں ایک اہم کردار ادا کرتی ہے۔ لیکن سوچنے کی بات یہ ہے کہ مکھیوں کے ماں باپ کو چھتا بنانے اور شہد پیدا کرنے کا نہ کوئی تجربہ اور نہ ہی ذاتی علم ہوتا ہے جو وہ اپنی اولاد کو مُنتقل کر سکیں، پھر بھی کارکن مکھیاں جبلی طور پر اپنی ذمہ داری محسوس کرتے ہوئے کافی حد تک جانتی ہیں کہ کِس طرح اِس کام کو نِبھانا ہے۔
تحقیق کرنے والوں نے اپنے مشاہدات سے یہ نتیجہ اَخذ کِیا ہے کہ نوجوان کارکن مکھیاں ایک قِسم کے ٹرینِنگ پروگرام یعنی سیکھنے کے عمل سے گزر کر ہنرمندی اور مہارت تک پہنچتی ہیں۔ اِس کے لئے اُن کو مختلف مراحل سے گزرنا پڑتا ہے یعنی چھتے کی صفائی کرنا، لاروے کی اگلی نسل کو خوراک مُہیا کرنا، باہر سے آنے والی خوراک کو لے کر جمع کرنا، چھتے کی حفاظت کرنا اور آخر میں کھیتوں سے خوراک جمع کرنا۔
صرف یہ نہیں کہ کارکن مکھیاں اپنے ماں باپ سے سیکھ نہیں سکتیں بلکہ کسی حد تک اُن کی بناوٹ میں بھی خاصا فرق ہوتا ہے۔ مثال کے طور پر اُن کی پچھلی ٹانگوں کے ساتھ ہی پھولوں کا زیرہ جمع کرنے کے لئے ٹوکری نُما تھیلیاں سی بنی ہوتی ہیں، جو نہ تو نَر اور نہ ہی ملِکہ کی ٹانگوں کے ساتھ ہوتی ہیں۔ اگرچہ ملِکہ، نَر اور کارکن مکھیاں سب ایک جیسے انڈوں ہی سے جنم لیتی ہیں بالکل جس طرح ایک پھلی میں مَٹر کے دانے۔ لیکن اِس کے بعد اِن میں فرق نمایاں ہوتا ہے یعنی نَر مکھیوں کے سلسلے میں جب ملِکہ انڈے دیتے وقت انڈوں کی تخم ریزی رُوک دیتی ہے تو اِن سے نَر شہد کی مکھیاں پیدا ہوتی ہیں۔ کارکن مکھیاں جو جنسی اعتبار سے ادُھوری رہ جاتی ہیں پھر بھی اُنہی انڈوں سے جنم لیتی ہیں جن کی تخم ریزی کی گئی ہو، لیکن جب مزید ملِکہ مکھیوں کی ضرورت ہوتی ہے جیسا کہ جب چھتے کو تقسیم کرنے کا وقت آتا ہے تو چند لاروے جو تخم ریزی کے انڈوں سے پیدا ہوئے ہوتے ہیں چُن کر اُن کو ایک خاص قِسم کی غذا یعنی شاہی جیلی کھِلائی جاتی ہے۔ یہ شاہی جیلی ایک مُنفرد خوراک ہے جو کارکن مکھیوں کے سَر کے اندر والے غدُود سے تیار ہوتی ہے۔ وہ لاروے جو تخم ریزی کِئے ہوئے انڈوں سے پیدا ہوتے ہیں اگر اُن کو شاہی جیلی نہ کِھلائی جائے تو وہ کارکن مکھیوں کی صُورت اِختیار کر لیتے ہیں۔ لیکن وہ لاروے جن کو شاہی خوراک ملتی ہے وہ جنسی اعتبار سے ترقی پا کر ملِکہ بن جاتے ہیں۔
لہذا ہم دیکھتے ہیں کہ چھتے کی زندگی ایک بہت ہی پیچیدہ سلسلے پر مُنحصر ہے۔ مثلاً تین قِسم کی مکھیاں چھتے کی زندگی کو قائم و دائم رکھنے کے لئے ضروری ہیں یعنی ملِکہ مکھیاں، نَر مکھیاں اور کارکن مکھیاں۔ اِن تینوں میں کسی ایک کے بغیر چھتا فوراً تباہ و برباد ہو جائے گا۔ یہ تینوں اِقسام ایک ہی طرح کے انڈوں سے جنم لیتی ہیں، لیکن پھر بھی کسی نہ کسی طرح ملِکہ جانتی ہے کہ کِن انڈوں کی تخم ریزی کرنی ہے اور کِن کی نہیں کرنی۔ وہ مکھیاں جو لاروے کی دیکھ بھال کرتی ہیں کسی نہ کسی طرح جانتی ہیں کہ کِس لاروے کو شاہی خوراک کِھلانی ہے اور کِس کو نہیں کِھلانی۔
کارکن مکھیوں کو کسی نہ کسی طرح معلوم ہے کہ چھتے کے اندر شہد اور لاروے کو سہارا دینے کے لئے مُوم کے خول کیسے تعمیر کرنے ہیں۔ کسی نہ کسی طرح کارکن مکھیوں کی ٹانگوں کے ساتھ پھولوں کا زیرہ جمع کرنے کے لئے ٹوکری نُما تھیلیاں سی بنی ہوتی ہیں۔ کسی نہ کسی طرح نَر مکھیاں بغیر تخم ریزی کِئے ہوئے انڈوں سے جنم لیتی ہیں، اور کسی نہ کسی طرح پروان چڑھنے کے ساتھ ہی اُن کے اندر نسل پیدا کی قابلیت نمایاں ہو جاتی ہے۔ مگر یہ سب کیسے ممکن ہوتا ہے؟ یہ ناممکن سی بات ہے کہ یہ سب خوبیاں اور خاصیتیں دھیرے دھیرے ارتقائی عمل سے وجود میں آئی ہوں، جس کے سبب سے یکے بعد دیگرے تبدیلی ایک عرصہ کے دوران روُنما ہوتی رہی۔ لازم تھا کہ یہ سب کچھ ایک نہائت ہی مختصر سے وقت میں ظہور پذیر ہو ورنہ دُنیا میں آج شہد کی مکھیوں کا کہیں پتہ نہ چلتا۔ اگرچہ اُصولِ ارتقا کے ماننے والوں کے لئے یہ ایک بہت بڑا پیچیدہ مسئلہ ہے لیکن یہ مسئلہ حل ہو جاتا ہے اگر ہم الٰہی کلام کے مطابق خدا کو کُل کائنات کا خالق و مالک ماننے کی کوشش کرتے۔ بائبل مقدس میں لکھا ہے، ’’اور خدا نے جنگلی جانوروں اور چوپایوں کو اُن کی جنس کے موافق اور زمین کے رینگنے والے جانداروں کو اُن کی جنس کے موافق بنایا اور خدا نے دیکھا کہ اچھا ہے۔‘‘ (پیدائش ۱:۲۵)
دوسرے لفظوں میں یہ کہ خدا نے ہر اُس چیز کو جس میں زندگی کا دَم ہے ایک انوکھے اور عجیب طریقے سے بنایا۔ اِن میں سے کسی ایک کو بھی فرضی ارتقائی عمل کے تصور کے مطابق سمجھنے کی ضرورت نہیں۔ زندگی خدا کی قدرت سے حیرت انگیز طرح طرح کے رنگوں کے ساتھ وجود میں آئی جو آج بھی ساری زمین پر ہمارے اِرد گرد بِکھرے ہوئے ہیں۔
یہ کِس قدر اعلیٰ بات ہے کہ ہم خود خدا کے براۂ راست اِختیار اور حُکم سے اپنی مکمل شخصیت کے ساتھ دُنیا میں آئے ہیں، نہ کے کسی حادثاتی یا اِتفاقی عمل کے ذریعہ۔ آئیے! کیوں نہ ہم حضرت دائود کے ساتھ خوشی و شادمانی کا اِظہار کرتے ہوئے اپنے خالق و مالک کے حضور نذرانۂ عقیدت پیش کریں کہ، ـــاَے خدا! ’’تیری آنکھوں نے میرے بے ترتیب مادے کو دیکھا اور جو ایام میرے لئے مُقرر تھے وہ سب تیری کتاب میں لکھے تھے جبکہ ایک بھی وجود میں نہ آیا تھا۔‘‘ (زبور ۱۳۹:۱۶)
خدا ئے بزرگ و برتر نے یرمیاہ نبی سے کلام کرتے ہوئے فرمایا، ’’اِس سے پیشتر کہ مَیں نے تجھے بطن میں خلق کِیا مَیں تجھے جانتا تھا…‘‘ (یرمیاہ ۱:۵) اِس کا مطلب یہ ہوا کہ خدا ہمیں فرداً فرداً یعنی شخصی طور پر جانتا اور پہچانتا ہے۔ یسوع مسیح نے اِس سے کہیں زیادہ وضاحت کے ساتھ خدا کے حق میں فرمایا، ’’کیا پیسے کی دو چڑیاں نہیں بِکتیں؟ اور اُن میں سے ایک بھی تمہارے باپ کی مرضی کی بغیر زمین پر نہیں گر سکتی… تمہاری قدر تو بہت سے چڑیوں سے زیادہ ہے۔‘‘ (متی ۱۰:۳۱-۲۹)
پس خاطِر جمع رکھو اور اپنی زندگی کو بامقصد اور پُر معنی بنانے کے لئے اور اپنے گناہوں سے نجات پانے کے لئے مسیح یسوع کے وسیلے سے خدا کو تلاش کرو۔