وہ پرندے جو ہرسال ایک طویل فاصلہ طے کر کے ہجرت کرتے ہیں، مُشاہدہ کرنے والوں کے لئے عرصہ دراز سے حیرت کا سبب بنے ہوئے ہیں۔ لیکن اِن سے بھی زیادہ حیرت کا باعث ہجرت کرنے والی وہ تتلی ہے جو عام طور پر سُلطانی تتلی کہلاتی ہے۔
سُلطانی تتلیاں پَت جھڑ کے موسم میں تین ہزار میل تک سفر کرتی ہیں۔ یہ تتلیاں پاکستان اور چین میں پائی جاتی ہیں۔ اِس کے علاوہ کروڑوں کی تعداد میں امریکہ اور کینیڈا کے بیشتر علاقوں سے وسطی میکسیکو کے چھوٹے جنگل میں جمع ہوتی ہیں۔ لیکن اِن کی سالانہ ہجرت کے بارے میں حیران کن بات یہ ہے کہ آج تک کسی ایک بھی سُلطانی تتلی نے اپنے سفر کا مکمل چکر نہیں لگایا۔ اِن کروڑوں پنکھ مُسافروں میں ہر ایک تتلی یہ ہجرت صرف ایک بار کرتی ہے۔ اِن کے ہاں کوئی ماہر راہنما یا رضاکار نہیں ہوتا جو اُن کی راہنمائی کر سکے۔ اگرچہ یہ اپنا سفر ایک بڑے برِاعظم پر پھیلے ہوئے مختلف علاقوں سے شروع کرتی ہیں مگر پھر بھی تقریباً ۱۵ مربع میل پر پھیلے ہوئے پہاڑی علاقے پر اپنے سفر کی تکمیل کرتے ہوئے جمع ہو جاتی ہیں، اور موسم سرما میں تمام درختوں ٹِمٹِماتے ہوئے خوبصورت گہرے زرد اور کالے کمبل کی مانند ڈھانپ دیتی ہیں۔
جب اپریل کے مہینے میں اُن کی روانگی کا وقت ہوتا ہے تو سُلطانی تتلیاں اپنی مدہُوشی سے جاگتی ہیں اور واپس شمال کی طرف اپنا طویل سفر شروع کر دیتی ہیں۔ لیکن وہ کبھی بھی شمالی موسمِ گرما کے خوراکی میدانوں تک نہیں پہنچ سکتیں، کیونکہ سفر کے دوران وہ انڈے دینے کے جلد ہی بعد مَر جاتی ہیں۔ اُن کے انڈوں سے بُھوکے لاروے نکلتے ہیں جو اگلی شکل اِختیار کرنے سے پہلے کئی ہفتے تک دوُدھ رَس پتوں سے خوراک حاصل کرتے ہیں۔ ایک یا دو ہفتے میں ایک بالغ سُلطانی تتلی پوپے یعنی منجھ رُوپ سے باہر نکلنے کی کوشِش کرتی ہے، اور اپنے پَر خشک اور مضبوط ہونے کے بعد خوراک کھانے کے لئے تیار ہو جاتی ہے اور تھوڑی ہی دیر بعد انڈے دے کر مَر جاتی ہے۔
اِس سے پہلے کہ تتلیوں کی نسل کا خاتمہ ہو ایک یا دو اِضافی نسلیں زندہ رہتی ہیں اور پھر ہجرت کرنے والی عمردراز نسل آجاتی ہے۔ موسمِ گرما میں ختم ہونے والی یہ نسل اپنی قوت کو ستمبر کی روانگی اور جنوب کے لمبے سفر کے لئے محفوظ رکھتی ہے، خواہ کیسے بھی حالات ہوں وہ اپنا راستہ اور منزلِ مقصود کا پتہ معلوم کر لیتی ہے، لیکن آج تک کوئی بھی اِس بھید کو نہیں جان سکا۔ ہم بخوبی جانتے ہیں کہ تتلیوں کے پاس نہ تو براہء راست تجربہ ہوتا ہے اور نہ ہی یہ علم اُن کو نسل در نسل سکھایا جاتا ہے۔ دراصل اُن کے پَروں میں تھوڑی سی مقناطیسی اہنی مِقدار شامل ہوتی ہے جس کی بِنا پر سائنسدان خیال کرتے ہیں کہ شائد اِس آہنی مِقدار کے سبب سے تتلیاں مقناطیسی میدان کی جانب اپنی سمت مُتعین کرنے کا اندازہ لگا سکتی ہیں۔
اگرچہ اِس مقناطیسی مِقدار کی بِنا پر تتلیوں کو معلوم ہو جاتا ہے کہ شمال کِس طرف ہے پھر بھی اپنی منزلِ مقصود پر پہنچنے کے لئے ہر تتلی کو علیحدہ حساب لگانا پڑتا ہے کیونکہ وہ مشرق سے مغرب تک ایک وسیع علاقے پر پھیلی ہوئی ہیں۔
کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ شائد ہوائوں کی مدد سے تتلیوں کو اپنی سمت معلوم ہو جاتی ہے جبکہ کئی سائنسدانوں کا اندازہ ہے کہ ممکن ہے کہ وہ ستاروں کی روشنی کی مدد سے اپنی راہ کا تعین کرتی ہیں۔ لیکن اِنسانی خیالات اور تصورات مدِنظر رکھتے ہوئے آئیے! سُلطانی تتلیوں کی ذہانت، قابلیت اور قوت کا اصل سبب جاننے کی کوشش کریں کہ وہ کون ہے جس سے اُنہیں عقل و دانش سے بھرپور علم بخشا؟ وہ کون ہے جو نہ صرف اُن کو ہر بَلا سے محفوظ رکھتا ہے بلکہ اُنہیں خوراک بھی مُہیا کرتا ہے؟ تو اِس کا جواب یقینا یہی ہے کہ وہ بزرگ و برتر ہستی خدائے قادرِ مطلق کی ہے جو بِلاشبہ اُن کا خالق و مالک ہے۔ اِسی لئے اُس نے فرمایا، ’’…زمین کے کُل جانوروں کے لئے اور ہَوا کے کُل پرندوں کے لئے اور اُن سب کے لئے جو زمین پر رینگنے والے ہیں، جن میں زندگی کا دَم ہے کُل ہری بوٹیاں کھانے کو دیتا ہے۔‘‘ (پیدائش ۱:۳۰) بائبل مقدس میں ایک اَور مقام پر لکھا ہے، ’’…اَے خداوند تُو اِنسان اور حَیوان دونوں کو محفوظ رکھتا ہے۔‘‘ (زبور ۳۶:۶)
خدا نے بنی نوع اِنسان کو عقل و دانش سے نوازا ہے کہ وہ اِس وسیع و عریض زمین کے عجیب و غریب کاموں کو دریافت کرے، پھر اپنے خالق کے اِنہی اُنوکھے کاموں کو دیکھ کر اُس کی عظمت و قدرت کو نہ صرف پہچانے اور سمجھے بلکہ بخوشی تسلیم بھی کرے۔ لیکن اِس سے بھی زیادہ مُفید اور مُناسب یہ ہے کہ ہم اِلٰہی سچائی کو بائبل مقدس سے جاننے اور پہچاننے کی کوشش کریں کیونکہ یہی وہ زندہ کلام ہے جو ہمیں سکھاتا ہے کہ خدا ہی ہمارا پروردگار، خدا ہی ہمارا رہبر اور خدا ہی ہمارا رازق ہے۔ اُس سے الگ رہ کر اور اُس کا اِنکار کر کے ہم کٹی ہوئی ڈالی اور ٹوٹے ہوئے پتے کی مانند ہیں۔ بائبل مقدس میں واضح طور پر لکھا ہے، اَے خداوند، ’’سب کی آنکھیں تجھ پر لگی ہیں تُو اُن کو وقت پر اُن کی خوراک دیتا ہے۔ تُو اپنی مُٹھی کھولتا ہے اور ہر جاندار کی خواہش پوری کرتا ہے۔‘‘ (زبور ۱۴۵:۱۶-۱۵)
خدائے رحیم و کریم ہمارا خالق و مالک ہے۔ ہم اُس کا اِنکار نہیں کر سکتے، اور اِنکار کریں بھی تو کیسے؟ کیا تخلیق، تخلیق کار سے کہہ سکتی ہے کہ تُو نے مجھے نہیں بنایا؟ خدا نے ہمیں اپنی شبیہ پر خلق کِیا ہے۔ اُس نے ہمیں زندگی کی تمام تر آسائشوں اور نعمتوں سے نوازا ہے۔ اُس نے ہمیں حِکمت و سمجھ سے آراستہ کِیا ہے۔ اُس نے ہمیں غُلامی میں نہیں بلکہ آزادی میں سانس لینے کا حوصلہ بخشا ہے یقینا وہ ہمارا نگہبان اور محافظ ہے۔ وہ سُلطانی تتلیوں سے کہیں زیادہ ہماری فکر و قدر کرتا ہے، جیسا کہ یسوع المسیح نے فرمایا، ’’کیا پیسے کی دو چڑیاں نہیں بِکتیں؟ اور اُن میں سے ایک بھی تمہارے باپ (یعنی خدا) کی مرضی بغیر زمین پر نہیں گِر سکتی، بلکہ تمہارے سَر کے بال بھی سب گِنے ہوئے ہیں۔ پس ڈرو نہیں تمہاری قدر تو بہت سی چڑیوں سے زیادہ ہے۔‘‘ (متی ۱۰:۳۱-۲۹)