ہم اکثر اپنے آپ کو بالکل بے چار و بے یار و مددگار محسوس کرتے ہیں، جب ہمارے حالات ہمارے بس سے باہر ہو جاتے ہیں، مثال کے طور پر کھانے پینے کی چیزیں ایک دم اِتنی مہنگی ہو جاتی ہیں کہ قیمتیں آسمان سے باتیں کرنے لگتی ہیں، ایسے میں اپنے خاندان کو پالنا مشکل ہو جاتا ہے، یا کوئی نیا قانون یا قاعدہ و ضابطہ بنا ہے جس سے ہماری زندگیوں پر اَور بوجھ پڑ گیا ہے، کسی نے ہم سے قیمتوں میں اِضافے کے بارے صلاح مشورہ نہیں کِیا، جب نیا قانون یا ضابطہ لکھا گیا تو اُس میں ہمارا کوئی عمل دخل نہیں، مگر پھر بھی یہ باتیں ہماری روزمرہ زندگی پر اثر انداز ہوتی ہیں، جیسا کہ سلیمان بادشاہ نے صدیوں پہلے کہا، ’’…بادشاہ کا حکم بااِختیار ہے اور اُس سے کون کہے گے کہ تُو یہ کیا کرتا ہے؟‘‘ (وعِظ ۸:۴)
جب ہم پر قدرتی آفات و مصیبتیں آن پڑتی ہیں تو ہم اَور بھی زیادہ بے چار و بے مددگار محسوس کرتے ہیں، بغیر کسی پیشگی اِطلاع کے زمین ہلنے لگتی ہے اور دیکھتے ہی دیکھتے ہمارے ہنستے بستے گھر مٹی کا ڈھیر ہو جاتے ہیں، یا اچانک طوفان ہمارے گھر کی ہر چیز کو اپنے ساتھ بہا لے جاتا ہے، یا آسمانی بجلی کی کڑک کسی جانور کو موت کی نیند سُلا دیتی ہے، کبھی کبھی ہم سوچتے ہیں کہ جیسے قدرت کے ہاتھوں میں ایک کھلونا ہیں۔
ہم بے بس و لاچار اِس لئے محسوس کرتے ہیں کہ خدا کی اِجازت و مرضی کے بغیر کچھ بھی نہیں ہو سکتا، جیسا کہ حضرت ایوب نے کہا، ’’خدا میں سمجھ اور قوت ہے، اُس کے پاس مصلحت اور دانائی ہے، دیکھو! وہ ڈھا دیتا ہے تو پھر بنتا نہیں، وہ آدمی کو بند کر دیتا ہے تو پھر کھلتا نہیں، دیکھو! وہ مینہ کو روک لیتا ہے تو پانی سُوکھ جاتا ہے، پھر جب وہ اُسے بھیجتا ہے تو زمین کو اُلٹ دیتا ہے۔‘‘ (ایوب ۱۲:۱۳-۱۵)
جیسا کہ حضرت ایوب نے ایک اَور مقام پر کہا، ’’… کون اُسے روک سکتا ہے؟ کون اُسے کہے گا کہ تُو کیا کرتا ہے؟‘‘ (ایوب ۹:۱۲)
مگر خدا کے بارے میں حضرت ایوب کی عقل و سمجھ مکمل نہیں تھی، بائبل مقدس بڑی وضاحت سے یہ تعلیم دیتی ہے کہ جو کچھ ہو رہا ہے اُس پر ہمارا کسی نہ کسی طرح اِختیار و اثر ضرور ہوتا ہے، یہاں تک کہ قدرتی آفات پر بھی ہمارا اثر و اِختیار ہوتا ہے۔ خدا کا رسول یعقوب کہتا ہے، ــ’’…راستباز کی دُعا کے اثر سے بہت کچھ ہو سکتا ہے، ایلیاہ ہمارا ہم طبیعت اِنسان تھا، اُس نے بڑے جوش سے دُعا کی کہ مینہ نہ برسے، چنانچہ ساڑھے تین برس تک زمین پر مینہ نہ برسا، پھر اُس نے دُعا کی تو آسمان سے پانی برسا اور زمین میں پیداوار ہوئی۔‘‘ (یعقوب ۵:۱۶-۱۸)
اِس حوالے میں ہم نے دیکھا کہ دو شرطیں ہیں جن کو سامنے رکھتے ہوئے ہم قدرتی آفات پر اثر انداز ہو سکتے ہیں، پہلی یہ کہ ہم نیک و راستباز ہوں۔ اِس کا کیا مطلب ہے؟ اِس سے مُراد یہ ہے کہ لازم ہے کہ مسیح نے ہمارے گناہوں سے پاک صاف کرنے کے لئے جو قربانی دی اُس کو قبول کریں، اور ہم دِل و جان سے خدا کی مرضی و اِرادہ کو پورا کریں، اگر ہم مسیح کے پیروکار نہیں ہیں یا خدا نے جو کرنے کو کہا ہے اُس میں سُستی اور لاپرواہی سے کام لیں تو پھر کوئی گارنٹی نہیں کہ خدا ہماری سُنے گا۔
خدا کے پیارے بندے یعقوب نے دوسری شرط یہ رکھی ہے کہ ہم باقاعدگی سے دُعا کریں، ہم سچے دِل سے اُن چیزوں کے لئے دُعا کریں جن کی ہمیں ضرورت ہے، اور اگر ہم نیک و راستباز ہیں تو ہم لالچ و خود غرضی سے کام لیتے ہوئے اپنے لئے ایسی چیزیں نہیں مانگیں گے بلکہ خدا کی مرضی اور اِرادے کو جاننے کی کوشش کریں گے، جب ہم اُن چیزوں کے لئے باقاعدگی سے دُعا کریں گے جو خدا کی مرضی اور اِرادے کے عین مطابق ہیں تو پھر ہمیں اعتماد و بھروسہ ہو گا کہ جو ہم مانگیں گے وہ ہمیں مِلے گا، خواہ قدرتی آفات کی سمت و تعین ہی کیوں نہ ہو، مسیح یسوع نے اپنے شاگردوں سے کہا، ’’…مَیں تم سے سچ کہتا ہوں کہ اگر تم میں رائی کے دانے کے برابر بھی اِیمان ہو گا تو اِس پہاڑ سے کہہ سکو گے کہ یہاں سے سِرک کر وہاں چلا جا اور وہ چلا جائے گا، اور کوئی بات تمہارے لئے ناممکن نہ ہو گی۔‘‘ (متی ۱۷:۲۰)
مگر اِس سے ہمارے ذہن میں ایک اَور سوال اُبھرتا ہے، ہم خدا کی مرضی و اِرادے کو کیسے جان سکتے ہیں تاکہ اُنہی چیزوں کے لئے دُعا کریں جو وہ چاہتا ہے؟ اکثر ایسا ہوتا ہے کہ جب ہم خدا کی مرضی و اِرادے کو نہیں جانتے تو کیسے اندازہ لگا سکتے ہیں کہ دُعا کِس طرح کرنا ہے؟ یعقوب رسول ہمیں سمجھاتے ہوئے کہتا ہے کہ لازم ہے ہم ایسی چیزیں دُعا میں نہ مانگیں جو ہماری اپنی خواہش و مرضی کے مطابق ہوں بلکہ اپنی دُعائیں اور مُناجات اِس طرح پیش کریں کہ ’’اگر تیری مرضی ہو تو،‘‘ دوسرے لفظوں میں یہ کہ اگر ہم کسی مسئلے کے بارے میں خدا کی مرضی و اِرادے کو نہیں جانتے تو پھر بھی ہم اُس سے مانگیں اور جو وہ دے اُسے خوشی سے قبول کریں، یعقوب لکھتا ہے، ’’…تمہیں یہ کہنا چاہیے کہ اگر خداوند چاہے تو ہم زندہ بھی رہیں گے اور یہ یا وہ کام بھی کریں گے۔‘‘ (یعقوب ۴:۱۵)
بہت ساری چیزیں ہیں جن کے بارے میں خدا نے اپنی مرضی کو واضح کر دیا ہے، ہمیں پوری آزادی حاصل ہے کہ اُن چیزوں کے لئے دُعا کریں کیونکہ ہم جانتے ہیں کہ خدا چاہتا ہے کہ ہم ایسا کریں، مثال کے طور پر خدا نے یہودی لوگوں سے کہا کہ ’’… اُس شہر کی خیر منائو جس میں مَیں نے تم کو اسِیر کروا کر بھیجا ہے، اور اُس کے لئے خداوند سے دُعا کرو کیونکہ اُس کی سلامتی میں تمہاری سلامتی ہو گی۔‘‘ (یرمیاہ ۲۹:۷)
صورتِ حال کچھ یوں تھی کہ بنی اِسرائیل خدا سے مُنہ موڑ کر بت برستی میں پھنس گئے تھے، اُن کے بے شمار گناہوں اور توبہ نہ کرنے کے سبب سے خدا نے بابل کے لوگوں کو اُن پر چڑھائی کرنے کو بھیجا، اُنہوں نے اُن کے شہر یروشلیم کو تباہ و برباد کر دیا اور خدا کے کچھ وفادار و راستباز بندوں جن میں دانی ایل نبی بھی شامل تھا ساتھ لے گئے۔
خدا کا مقصد یہودی لوگوں کو نیست و نابود کرنا نہیں تھا، بلکہ اُن کو گناہوں سے پاک صاف کر کے نیک و راستباز اِنسان بنانا تھا، خدا چاہتا تھا کہ وہ خوشحال ہوں اِسی لئے اُس نے اُن سے کہا کہ وہ بابل کے رہنے والوں کے لئے دُعا کریں، ’’اُس کی سلامتی میں تمہاری سلامتی ہو گی۔‘‘ (یرمیاہ ۲۹:۷)
اگر ہم خدا کے لوگ ہیں تو خدا کی مرضی و اِرادے میں شامل ہے کہ ہم پر سلامتی ہو اور ہم خوشحال ہوں، مگر ہمیں بھی چاہیے کہ ہم اُس سر زمین کی سلامتی و خوشحالی کے لئے دُعا کریں جس میں ہم رہتے ہیں، شائد ہم یہ سوچیں کہ جہاں ہم رہتے ہیں وہ لوگ گمراہ و برگشتہ ہیں لہذا وہ تکلیفوں اور مصیبتوں میں ہی پھنسے رہیں، ممکن ہے کہ وہ یہاں تک خدا سے دُور ہوں کہ خدا کے لوگوں پر ہی ظلم و ستم برپا کر رہے ہیں، بابل کے لوگ گمراہ، باغی اور ظالم تھے مگر پھر بھی خدا نے بنی اِسرائیل سے کہا کہ اُن کے لئے دُعا کریں، ہماری فلاح و بہبود کا دارومدار ہمارے اِرد گرد بسنے والے لوگوں پر منحصر ہوتا ہے، اگر ہم خدا کی برکات چاہتے ہیں تو لازم ہے کہ ہم اُس سَر زمین اور وہاں کے بسنے والے لوگوں کے لئے دُعا کریں، شائد ہماری دُعائوں کے اثر سے ہمارا مُلک قدرتی آفت سے بچ جائے۔
خدا نے ہمیں یہ کہا ہے کہ اِختیار والوں یعنی اعلیٰ حکومتوں کے لئے بھی دُعا کریں، اپنے بُرے حالات پر رُونا اور حکومت کے خلاف بولنا بہت آسان ہے، ممکن ہے ہم سوچیں کہ حکومت کو ہماری پرواہ نہیں، وہ ہماری مدد و حفاظت کرنے کے کچھ نہیں کر رہی، ایسی شکائتیں اُس وقت زیادہ زور و شور سے سُنی جاتی ہیں جب کوئی قدرتی آفت یا مصیبت آن پڑتی ہے، وہ سمجھتے ہیں کہ حکومت اِس کو رُوک سکتی تھی، اور اگر رُوک نہیں سکتی تھی تو کچھ ایسی تیاری کی ہوتی جس سے اِتنی تباہی و بربادی نہ آتی، کم سے کم لاپرواہی اور سستی کا مظاہرہ تو نہ کِیا ہوتا، اور کچھ کو یہ شکائت بھی ہو گی کہ حکومت نے مصیبت زدہ لوگوں کی مدد کرنے کے لئے بہتر اِقدامات نہیں کِئے۔
ہاں، شکائت کرنا تو آسان ہے، مگر ہم نے کِتنی بار حکومت والوں اور اُن لوگوں کے لئے دُعا کی ہے جن کے ایک فیصلے سے ہمارے حالات میں بہتری آ سکتی ہے؟ پولس رسول کہتا ہے، ’’مَیں سب سے پہلے یہ نصیحت کرتا ہوں کہ مُناجاتیں اور دُعائیں اور اِلتجائیں اور شکرگزاریاں سب آدمیوں کے لئے کی جائیں، بادشاہوں اور سب بڑے مرتبہ والوں کے واسطے، اِس لئے کہ ہم کمال دینداری اور سنجیدگی سے امن و آرام کے ساتھ زندگی گذاریں، یہ ہمارے منجی خدا کے نزدیک عمدہ اور پسندیدہ ہے، وہ چاہتا ہے کہ سب آدمی نجات پائیں اور سچائی کی پہچان تک پہنچیں۔‘‘ (۱-تیمتھیس ۲:۱-۴)
شائد یہ ایک وجہ ہے کہ ہمارے گھروں میں امن و سلامتی، سکون و چین نہیں کیونکہ ہم حکومت والوں اور اِختیار والوں کے لئے دُعا نہیں کرتے، ذرا سوچیں کہ ہم نے کِتنی بار اُن کی فلاح و بہبود اور نجات کے لئے دُعا کی ہے؟
کچھ اَور بھی ہے جس کے لئے ہمیں لازم دُعا کرنی چاہیے، دائود بادشاہ نے فرمایا، ’’یروشلیم کی سلامتی کی دُعا کرو، وہ جو تجھ سے محبت رکھتے ہیں اِقبالمند ہوں گے۔‘‘ (زبور ۱۲۲:۶)
اِس زبور کے مطابق وہ جو یروشلیم کی سلامتی کے لئے دُعا کریں گے، اُن پر خود بھی برکت ہو گی، کیا ہم یروشلیم کی سلامتی کے لئے دُعا کرتے ہیں؟ کیا ہم دُعا کرتے ہیں کہ وہاں امن و صلح ہو؟
اگرچہ دائود نبی کے ذہن میں دُنیاوی یروشلیم تھا، مگر اِس کا ایک روحانی پہلو بھی ہے، یروشلیم محض ایک شہر ہی نہیں، بلکہ یہ سب یہودی لوگوں کے لئے ایک اِستعارے و تشبیہ کے طور پر اِستعمال ہوتا ہے، دیکھئے (زبور ۱۲۵ اُس کی ۲ آیت اور یسعیاہ کی کتاب ۵۲ باب ۹ آیت) لہذا یروشلیم شہر کے لئے دُعا کرنے سے مُراد سارے یہودی لوگوں کے لئے دُعا کرنا ہے، آج خدا کی طرف سے کلیسیا کو دیئے گئے ناموں میں سے ایک نام، ’’نیا یروشیلم‘‘ ہے، مکاشفہ کی کتاب ۲۱ باب اُس کی ۲ سے ۳ آیت میں اِس کا ذکر ہے۔
لہذا یروشلیم کی سلامتی کے لئے دُعا کرنا، کلیسیا کے لئے دُعا کرنا ہے جو مسیح کے پیروکار ہیں، تاریخ پر ایک نظر ڈالیں تو حقیقت خود سامنے آ جائے گی، اُن قوموں یا معاشروں کے ساتھ خدا نے کیا کِیا جنہوں نے یہودی لوگوں یا مسیح کے پیروکاروں کی مخالفت کی اور اُن پر ظلم و ستم برپا کِیا؟ ایک وجہ جس کی بِنا پر ہم دُکھوں، تکلیفوں اور مصیبتوں میں پھنسے رہتے ہیں یہ ہے کہ ہم نے کبھی مسیح کے پیروکاروں کے دُعا نہیں کی اور نہ ہی اُن کی فلاح و بہبود کے لئے کوشش کی، جیسا کہ ہمیں کرنا چاہیے۔
خدا ایک اچھا خدا ہے، جب ہم نیک و راستباز ہیں اور خدا کی مرضی و اِرادے کے مُوافق دُعا کرتے ہیں تو وہ ہماری دُعا کا جواب دیتا ہے اور ہمیں ہر آفت، دُکھ، تکلیف اور مصیبت سے بچائے رکھتا ہے۔