ہر شخص زندگی میں کسی نہ کسی مقام اور حالت میں خدا کے بارے کم از کم دو اہم صِفات کا علم ضرور رکھتا ہے، بائبل مقدس اور عام تجربہ کی واضح تعلیم دونوں ہمیں حقیقت سے آگاہ کرتی ہیں۔ مگر یہ دو الٰہی صِٖفات ہیں کیا؟ اور اگر یہ علم واقعی سچا ہے تو پھر کیوں ہر شخص خدا کو نہیں پہچانتا؟ اِن سوالات کے جواب ہمیں اپنے اور خدا کے بارے میں کافی کچھ بتا سکیں گے۔
پہلا یہ کہ خدا کی سب سے بڑی دو صِفات کیا ہیں جن کو ہر مرد و عورت کسی نہ کسی حد تک جانتے ہیں یا کسی آنے والے زمانے میں جان جائیں گے؟ اِس سوال کا جواب ہمیں اِنجیلِ مقدس میں رومیوں کے نام خط اُس کا پہلا باب اور ۲۰ آیت میں نظر آتا ہے، ’’کیونکہ اُس کی اندیکھی صِفتیں یعنی اُس کی ازلی قدرت اور الوہیت دُنیا کی پیدائش کے وقت سے بنائی ہوئی چیزوں کے ذریعہ سے معلوم ہو کر صاف نظر آتی ہیں، یہاں تک کہ اُن کو کچھ عُذر باقی نہیں۔‘‘ جیسا کہ ابھی آپ نے بائبل مقدس میں سُنا کہ خدا کی قدرت اور اُس کی الوہیت دو ایسی اہم صِفتیں ہیں جن کو بنی نوع اِنسان آغاز ہی سے واضح طور پر دیکھ چُکے ہیں۔ یہ نہ صرف دیکھی جا چکی ہیں بلکہ اچھی طرح سمجھی جا چکی ہیں۔
جہاں بہت سے لوگ اِن باتوں کے بارے میں بے پناہ خوشی محسوس کرتے ہیں، وہاں ایسے بھی ہیں جو اِن باتوں کے وجود پر حیران ہوں گے، کیونکہ اُنہوں نے ابھی تک اپنے دِلوں میں اِس سچائی کو معلوم ہی نہیں کِیا۔
ٰایک چھوٹے سے بچے کی حیثیت سے وہ دِن کون بھول سکتا ہے، جب ہم نے دہشت و خوف کی حالت میں خدا کی آواز سُنی، جب اُس نے بجلی اور بادل کی ایک بڑی طوفانی گرج میں اپنی جلالی قدرت کا بھرپور مظاہرہ کِیا۔ آئیے! ذرا ماضی میں جھانکیں، بچپن کی سوچوں میں دھڑکتا ہوا ایک ننھا سا دِل۔ ہاں، خدا اُن لمحات میں ہمارے بہت قریب تھا یا پھر کون ہے جوا اپنے بچپن میں برف سے ڈھکے ہوئے ایک عالیشان پہاڑ یا خدا کی دوسری کئی عظیم اُلشان مخلوق و تخلیق کی پہلی جھلک دیکھ کر دِل ہی دِل میں خوش نہ ہوا ہو۔ خدا یقینا بہت نزدیک تھا اور اُس لمحے اُس کی شہادت ہمارے دِلوں میں تازہ تھی۔ وہی لمحہ تھا جب ہم نے جانا اور پہچانا کہ خدا، کُل کائنات کا تخلیق کار ہے۔ بچپن کی سادگی میں بِنا کسی تعلیم اور مدد کے ہم نے جانا کہ خدا، خدائے قادرِ مُطلق اور مالک و تخلیق کار ہے۔ لیکن وہ لمحہ گزر گیا، خوفِ الٰہی جاتا رہا اور اِنکار کی کیفیت طاری ہو گئی۔ اِسی لئے آج آدمی کا دِل خدا کو جاننے کے واضح نتائج کا اِنکار کرتا ہے کیونکہ جانتا ہے کہ اگر وہ خدا کو پہچان لے گا تو پھر اُس پر فرض ہے کہ اُس کی دِل و جان سے تابعداری بھی کرے، لیکن وہ خدا کی تابعداری کرنا قطعی پسند نہیں کرتا۔ ظاہر ہے جس سے اُس کو محبت ہی نہیں اُس کی تابعداری کیونکر کرے گا؟ وہ اُس وقت تک خدا سے محبت نہیں کر سکتا جب تک اُس کی قُربت میں نہ رہے۔
بنی نوع اِنسان اپنی کم علمی اور لامحدود سوچ کے باعث خدا کو اپنی کی طرح کا تصور کرتے ہیں مگر یہ تسلیم کرتے ہیں کہ وہ عظیم اُلشان طاقت کا مالک ہے۔ اکثر اوقات ہم خدا کے بارے میں تین غلط فہمیوں کا شکار ہوتے ہیں۔ پہلی یہ کہ خدا محض اِنسانی خواہشات سمیت ایک اِنسان سے کہیں اعلیٰ و افضل ہے جو اُن کے خلاف حملہ کرنے اور اِنتقام لینے میں دیر نہیں لگاتا جو اُس کی چھوٹی چھوٹی باتوں کی بھی مخالفت کرتے ہیں، اور اِس حد تک طاقت ور ہے کہ سب کچھ عمل میں لاتا ہے۔ دراصل یہ قدیم یونانی تاریک و الخیال عقائد کی ایک شکل ہے جنہوں نے موروثی الٰہی پہچان کو اپنے اندر کاٹ تراش کر کے اپنی شبیہء پر بنائے گئے لاتعداد خدائوں میں تبدیل کر دیا ہے۔
دوسری غلط فہمی کا شکار وہ لوگ ہیں جو خدا کے بارے میں سچائی کے ساتھ علم نہیں رکھتے بلکہ اُن کے نزدیک یہ لاتعلق سی ہستی ہے جس نے دُنیا اور بنی نوع اِنسان کو تخلیق تو کیا مگر پھر اُن سے کنارہ کشی اِختیار کر لی۔ اِسی لئے ضرورت پڑنے پر ایسے لوگوں نے قدرے کم حیثیت کے خدائوں کو تخلیق کِیا، جن کی ہمدردیاں، قربانیوں اور پوجا پاٹ سے خریدی جا سکتی تھیں تاکہ فصل اچھی ہو، یا جنگ میں فتح ہو، یا عورت بچہ پیدا کرنے کے قابل ہو۔
تیسری غلط فہمی کا شکار وہ لوگ ہیں جو الوہیت کا تاج خود پہننے کی کوشِش کرتے ہیں۔ یہ بت پرستی کی جدید ترین شکل ہے۔ جدید بدعتی عقائد کے ماننے والوں کا کہنا ہے کہ اپنے آپ میں الوہیت رکھنے کے سبب اِنسان کو کسی اَور ہستی کی طرف دیکھنے کی قطعی ضرورت نہیں۔ لیکن یہ تصور بالکل فضول اور بے بُنیاد ہے کیونکہ اگر خدا موجود نہیں تو کائنات میں زندگی کا وجود بے معنی ہے۔ ایسے لوگ درحیققت آوارہ پتے کی مانند ہیں جو تیزی سے بہتے ہوئے پانی میں اِدھر اُدھر چکر لگا رہا ہے۔
ذرا سوچیئے، کہ بنی نوع اِنسان نے کیوں ضد اور ہٹ دھرمی سے کام لے کر خدا کی سچائی کو رُوکنے کی کوشش کی؟ اِس لئے کہ اُس کی یہ شدید ترین خواہش ہے کہ وہ اپنی زندگی اپنی مرضی کے مطابق بسر کرے۔ جنتے بھی جھوٹے خدا ہیں اُن سب میں ایک خصوصیت مشترکہ ہے یعنی اُن کو اپنے پرستار کی دُنیاوی خواہشات سے متاثر کِیا جا سکتا ہے۔ اگر قیمتی سے قیمتی قربانی اُن کے حضور گزرانی جائے تو اُن کی ہمدردی خریدی جا سکتی ہے۔ یہاں تک اِنسان نے اپنے ناراض خدائوں کو راضی کرنے کے لئے اپنے بیٹوں کو قربانی کی بھینٹ چڑھا دیا اور کچھ نے اپنے آپ کو بدرُوحوں کی غلامی میں دے دیا، اور کچھ نے اپنے جھوٹے خدائوں کی وجہ سے ساری زندگی خوف میں گزار دی کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ وہ اُن پابندیوں کی خلاف ورزی کریں جو اُن کے خداوٗوں کے سبب سے لگائی گئی ہیں۔
اُن کی حالت کیسی قابلِ رحم اور غیر ضروری ہے، کیونکہ خدا نہ تو ہوس پرست اور نہ ہی غصے والا ہے، اور وہ نہ الگ تھلگ، بے پرواہ رہنے والا خدا ہے۔ ہم کائنات سے یہ حقیقت سیکھ سکتے ہیں، بشرطیکہ ہماری آنکھیں واقعی کھلی ہوئی ہوں۔ جیسے کہ بائبل مقدس میں لکھا ہے، ’’…وہ اپنے سورج کو بدوں اور نیکوں دونوں پر چمکاتا ہے اور راستبازوں اور ناراستوں دونوں پر مینہ برساتا ہے۔ ‘‘ (متی ۵:۴۵) اِس سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ کائنات خدا کے تابع ہے اور گناہگاروں کے بارے میں صبر کرتا ہے۔ لیکن کائنات پوری طرح ہماری اِس حاجت مندی کو دُور نہیں کر سکتی کہ ہم خدا کو جانیں اور پہچانیں۔ اِس لئے ضروری ہے کہ اُس کے زندہ کلام کا مطالعہ کریں جو اُس نے بنی نوع اِنسان کو اِسی مقصد کے لئے عطا کِیا ہے۔
خدا کے زندہ کلام یعنی بائبل کا مرکزی سبق یہ ہے کہ خدا نے اپنے بیٹے یسوع مسیح کو دُنیا میں بھیجا تاکہ اُس کے وسیلہ سے بھٹکا ہوا اِنسان اپنے تخلیق کار کی طرف رُجوع لائے۔ آئو، زندہ خدا کے زندہ بیٹے مسیح کے پاس آئو تو تم باپ یعنی خدا کو پائو گے۔ اِنجیلِ مقدس میں لکھا ہے، ’’…اگر بیٹا تمہیں آزاد کرے گا تو تم واقعی آزاد ہو گے۔‘‘ (یوحنا ۸:۳۶)
خُدا کو جاننا
Posted in وجُودِ اِلٰہی