یہ سچ ہے کہ ہمارے ہاں لوگ خدا کی راہ میں دِل کھول کر دیتے ہیں مگر یہ بھی سچ ہے کہ ہم غریبوں محتاجوں کو دیتے ہوئے نمود و نمائش سے کام لیتے ہیں تاکہ دُنیا دیکھے کہ ہم کتنے سخی، رحمدل اور خدا ترس ہیں۔ بُنیادی طور پر ہمارا مقصد خدا کو خوش کرنا ہوتا ہے لیکن سوال یہ ہے کہ کیا خدا ڈھنڈورا پیٹ کر دینے سے خوش ہوتا ہے؟ حقیقت یہ ہے کہ ہم خدا کو نہیں اپنے آپ کو تسلی و خوشی دے رہے ہوتے ہیں کہ بس اَب جنت کی راہ تیار ہو گئی حالانکہ اچھے اور نیک کاموں کا جنت سے دُور دُور تک کوئی واسطہ نہیں کیونکہ بھلائی و نیکی کے کام کرنا ہمارا فرض ہے۔
آئیے دیکھتے ہیں کہ مسیحی تعلیم کی روشنی میں خیرات، چندہ، ہدیہ اور فلاح و بہبود کے کاموں کی کیا اہمیت ہے، اور خدا کی راہ میں دینے والا کیسے دے، اور جو نہیں دیتے اُن کے بارے میں خدا کیا کہتا ہے۔ ملاکی نبی کی اِلہامی کتاب میں خداوند خدا فرماتا ہے، ’’کیا کوئی آدمی خدا کو ٹھگے گا؟ پر تم مجھ کو ٹھگتے ہو اور کہتے ہو ہم نے کس بات میں تجھے ٹھگا؟ دہ یکی اور ہدیہ میں۔ پس تم سخت ملعُون ہوئے کیونکہ تم نے بلکہ تمام قوم نے مجھے ٹھگا۔ پوری دہ یکی (یعنی آمدن کا دسواں حِصہ) ذخیرہ خانہ میں لائو تاکہ میرے گھر میں خوراک ہو اور اِسی سے میرا اِمتحان کرو، رَبُ الافواج فرماتا ہے کہ مَیں تم پر آسمان کے دریچوں کو کھول کر برکت برساتا ہوں کہ نہیں یہاں تک کہ تمہارے پاس اُس کے لئے جگہ نہ رہے، اور مَیں تمہاری خاطر ٹِڈی کو ڈانٹوں گا اور وہ تمہاری زمین کے حاصل کو برباد نہ کرے گی اور تمہارے تاکستانوں کا پھل کچا نہ جھڑ جائے گا، ربُ الافواج فرماتا ہے۔ اور سب قومیں تمہیں مُبارک کہیں گی کیونکہ تم دِلکشا مملکت ہو گے ربُ الافواج فرماتا ہے۔‘‘ (ملاکی ۳:۸-۱۲) آپ نے غور فرمایا کہ خدا کے گھر میں دینا کتنا ضروری ہے بلکہ خدا کہتا ہے کہ جو نہیں دیتے وہ مجھے ٹھگتے ہیں۔ خدا چاہتا ہے کہ اگر ہم اُس سے محبت کا دعویٰ کرتے ہیں تو محبت کا عملی مظاہرہ بھی کریں اور خدا کی راہ میں اِیثار و قربانی سے دریغ نہ کریں کیونکہ خدا نے بھی اپنی محبت سے مجبور ہو کر ہمارے لئے اپنے بیٹے مسیح یسوع کو صلیب پر قربان کر دیا۔ ذرا سوچئیے کہ جس خدا نے ہمیں ابدی ہلاکت سے بچانے کے لئے اپنے بیٹے کا خون بہانے سے دریغ نہ کِیا، کیا وہ ہمیں کسی اَور آسمانی برکت سے محرُوم رکھے گا؟ ’’کیونکہ خدا نے دُنیا سے ایسی محبت رکھی کہ اُس نے اپنا اِکلوتا بیٹا بخش دیا تاکہ جو کوئی اُس پر اِیمان لائے ہلاک نہ ہو بلکہ ہمیشہ کی زندگی پائے۔‘‘ (یُوحنا ۳:۱۶)
یہ ہے خدا کی محبت، اِیثار و قربانی کا معیار، اِسی لئے خدا ہم سے بھی توقع رکھتا ہے کہ ہم بھی اُس کی راہ میں فراخدِلی کا مظاہرہ کریں، اور خوشی سے غریبوں مُحتاجوں کی مدد کریں۔ ’’اگر کوئی بھائی یا بہن ننگی ہو اور اُن کو روزانہ روٹی کی کمی ہو، اور تم میں سے کوئی اُن سے کہے کہ سلامتی کے ساتھ جائو، گرم اور سَیر رہو مگر جو چیزیں تن کے لئے درکار ہیں وہ اُنہیں نہ دے تو کیا فائدہ؟‘‘ (یعقوب ۲:۱۵-۱۶) مطلب یہ کہ اگر کوئی بھائی یا بہن غُربت کا شکار ہو تو ہمیں اُس کی مدد کرنے میں دریغ و لاچاری کا مظاہرہ نہیں کرنا چاہیے بلکہ خوشی سے دیں کیونکہ جِتنا بُوئیں گے اُتنا کاٹیں گے۔ پولس رسول زندہ اِلہامی کلام میں کہتا ہے، ’’لیکن بات یہ ہے کہ جو تھوڑا بُوتا ہے وہ تھوڑا کاٹے گا اور جو بہت بُوتا ہے وہ بہت کاٹے گا۔ جس قدر ہر ایک نے اپنے دِل میں ٹھہرایا ہے اُسی قدر دے نہ دریغ کر کے اور نہ لاچاری سے کیونکہ خدا خوشی سے دینے والے کو عزیز رکھتا ہے۔‘‘ (۲-کرنتھیوں ۹:۶-۷)
ایک سچے مسیحی کے لئے خدا کی راہ میں دینا نہایت ضروری ہے کیونکہ اِس سے اُس کی خدا سے محبت کا پتہ چلتا ہے۔ بہت سے لوگ خدا کو دینے کے موضوع پر بات کرنا نہیں چاہتے یا ٹال مٹول سے کام لیتے ہیں۔ آئیے پاک کلام کی روشنی میں دیکھتے ہیں ایک اِیماندار مسیحی کے لئے خدا کی راہ میں دینا کیوں ضروری ہے۔
نمبر۱، جب ہم خدا کی راہ میں دیتے ہیں تو خدا خوش ہوتا ہے، اِسی لئے لکھا ہے کہ ’’…خدا خوشی سے دینے والے کو عزیز رکھتا ہے۔‘‘ (۲-کرنتھیوں ۹:۷) خدا کلیسیائوں میں اِیمانداروں سے کہتا ہے کہ وہ بیزاری و لاچاری سے نہیں بلکہ خوشی سے دیں۔
نمبر۲، ہم خدا کو دیں اور اُمید رکھیں کہ وہ ہمیں اَور دے گا۔ مسیح خداوند نے فرمایا، ’’دِیا کرو، تمہیں بھی دِیا جائے گا۔ اچھا پیمانہ داب داب کر اور ہِلا ہِلا کر اور لبریز کر کے تمہارے پلے میں ڈالیں گے کیونکہ جس پیمانہ سے تم ناپتے ہو اُسی سے تمہارے لئے ناپا جائے گا۔‘‘ (لُوقا ۶:۳۸) مسیح خداوند یہاں یہ نہیں کہہ رہے کہ اگر ہم دیں گے تو مالا مال ہو جائیں گے بلکہ اگر ہم دوسروں کی مدد کریں گے تو خدا کی آسمانی برکات ہم پر نازل ہوں گی۔ دینا ہماری خدا کے ساتھ وفاداری و محبت کا ایک نشان ہے اور خدا اِس کا بدلہ اپنے وعدے کے مطابق ضرور دے گا۔
نمبر۳، ہمارا خدا کی راہ میں دینا، ہماری اُس کے لئے ایک معقُول عبادت و قربانی گِنا جاتا ہے۔ پاک کلام میں پولس رسول کہتا ہے، ’’پس اَے بھائیو! مَیں خدا کی رحمتیں یاد دِلا کر تم سے اِلتماس کرتا ہوں کہ اپنے بدن ایسی قربانی ہونے کے لئے نذر کرو جو زندہ اور پاک اور خدا کو پسندیدہ ہو، یہی تمہاری معقُول عبادت ہے۔‘‘ (رُومیوں۱۲:۱) خدا کی راہ میں دینا صرف پیسے اور مال اسباب تک ہی محدُود نہیں بلکہ ہم اپنے بدن اور اپنی زندگیاں خدا کی عبادت کے لئے پیش کر سکتے ہیں کیونکہ مسیح نے بھی ہمارے گناہوں کے عوض صلیب پر اپنی جان کا نذرانہ پیش کِیا تاکہ ہم خدا کے ساتھ اپنا ٹوٹا رشتہ بحال کر سکیں لہذا ہمارا بھی فرض ہے کہ خوش دِلی سے اپنے آپ کو خدا کی خدمت کے لئے پیش کریں۔
نمبر۴، خدا کی نظر میں دینے والے کا دِل، ہدیے کے سائز و مِقدار سے زیادہ اہمیت رکھتا ہے۔ پاک کلام میں مسیح خداوند کے بارے میں لکھا ہے، ’’پھر اُس نے آنکھ اُٹھا کر اُن دولتمندوں کو دیکھا جو اپنی نذروں کے روپئے ہیکل کے خزانہ میں (یعنی خدا کی عبادت گاہ) میں ڈال رہے تھے، اور ایک کنگال بیوہ کو بھی اُس میں دو دمڑیاں ڈالتے دیکھا۔ اِس پر اُس نے کہا، مَیں تم سے سچ کہتا ہوں کہ اِس کنگال بیوہ نے سب سے زیادہ ڈالا کیونکہ اُن سب نے تو اپنے مال کی بہتات سے نذر کا چندہ ڈالا مگر اِس نے اپنی ناداری کی حالت میں جِتنی روزی اُس کے پاس تھی سب ڈال دی۔‘‘ (لُوقا ۲۱:۱-۴) مسیح یسوع نے کنگال بیوہ کے ہدیئے کو پہچان لیا کہ یہ دد دمڑیاں دُنیا کی نظر میں بہت حقیر و معمولی ہیں مگر خدا کی نظر میں بیوہ کی وفاداری و ہدیہ بہت بڑا ہے کیونکہ جو اُس کے پاس تھا وہ سب اُس نے خدا کی راہ میں دے دیا اِسی لئے خدا کے بیٹے مسیح یسوع نے اُس کا ہدیہ قبول کِیا۔
نمبر۵، جو ہمارے پاس ہے اُس پر قناعت کریں اور باقی دوسروں میں بانٹ دیں۔ پولس رسول کہتا ہے، ’’پس اگر ہمارے پاس کھانے پہننے کو ہے تو اُسی پر قناعت کریں۔‘‘ (۱-تیمتھُیس ۶:۸) مطلب یہ کہ اگر خدا نے ہمیں اِتنا دیا ہے کہ ہماری روزمرہ کی ضروریات پوری ہو رہی ہیں تو ہمارا فرض ہے کہ اپنے اُن بہن بھائیوں کو بھی یاد رکھیں جن کے پاس نہیں۔
نمبر۶، ہمارا خدا کے گھر میں دینا، ہمارے اِیمان کو ظاہر کرتا ہے۔ پاک کلام میں لکھا ہے، ’’پوری دہ یکی ذخیرہ خانہ میں لائو تاکہ میرے گھر میں خوراک ہو اور اِسی سے میرا اِمتحان کرو۔ ربُ الافواج فرماتا ہے کہ مَیں تم پر آسمان کے دریچوں کو کھول کر برکت برساتا ہوں کہ نہیں یہاں تک کہ تمہارے پاس اُس کے لئے جگہ نہ رہے۔‘‘ (ملاکی ۳:۱۰) جب مالی حالات سازگار نہیں ہوتے تو کچھ لوگ خدا کو دینے میں گریز کرتے ہیں لیکن خدا جب ہمیں تنگ مالی حالات میں بھی وفادار دیکھتا ہے تو آسمان کے دریچے کھول کر برکت برساتا ہے۔
نمبر۷، خدا کی راہ میں دینا، ہماری محبت کی ظاہری علامت ہے۔ خدا کے زندہ کلام میں لکھا ہے، ’’جس کسی کے پاس دُنیا کا مال ہو اور وہ اپنے بھائی کو مُحتاج دیکھ کر رحم کرنے میں دریغ کرے تو اُس میں خدا کی محبت کیونکر قائم رہ سکتی ہے؟‘‘ (۱-یُوحنا ۳:۱۷) دوسروں سے محبت کو جانچنے تولنے کا یہ ایک بہترین اُصول ہے۔ اگر ہمارے دِل میں خدا کی محبت ہے تو اپنے مال سے دوسروں کی مدد کریں اِس طرح اِنجیل کی خوشخبری پھیلتی ہے۔ اگر ہم کسی کی مدد نہیں کرتے تو ہم میں خدا کی محبت نہیں بلکہ ہم خود غرض ہیں۔
نمبر۸، ہمارا خدا کو دینا، ہماری بہتر اِلٰہی خدمت کی عکاسی کرتا ہے۔ پاک کلام میں لکھا ہے، ’’اور خدا تم پر ہر طرح کا فضل کثرت سے کر سکتا ہے تاکہ تم کو ہمیشہ ہر چیز کافی طور پر مِلا کرے اور ہر نیک کام کے لئے تمہارے پاس بہت کچھ موجود رہا کرے۔‘‘ (۲-کرنتھیوں ۹:۸) پولس رسول یہاں اپنے اُسی اِلہامی پیغام ’’…خدا خوشی سے دینے والے کو عزیز رکھتا ہے‘‘ (۲-کرنتھیوں ۹:۷) اِس میں یہ وعدہ بھی شامل ہے کہ اُن پر کثرت سے خدا کا فضل ہُوا ہے تاکہ اُن کے پاس کبھی کسی چیز کی کمی نہ ہو۔ خدا کی برکت و فضل محض اپنے پاس سنبھال کر رکھنے کے لئے نہیں بلکہ دوسروںمیں بانٹنا ہے تاکہ خدا خوش ہو۔
نمبر۹، خدا کو دینے کی بُنیاد محبت ہونی چاہیے۔ لکھا ہے، ’’اور اگر اپنا سارا مال غریبوں کو کِھلا دُوں یا اپنا بدن جلانے کو دے دُوں اور محبت نہ رکھوں تو مجھے کچھ فائدہ نہیں۔‘‘ (۱-کرنتھیوں ۱۳:۳) مطلب یہ ہے اگر ہم اپنا سب کچھ خدا کی راہ میں دے دیں بلکہ اپنی جان بھی قربان کر دیں مگر محبت نہ رکھیں تو سب کچھ بے کار ہے لہذا کسی کو دینے میں محبت ضرور شامل ہونی چاہیے ورنہ خدا کے ہاں، ایسے دینے کی کچھ قدر نہیں۔
نمبر۱۰، لالچ اور آنکھ چُرانا ہمارے زوال کا باعث بن سکتا ہے۔ خدا کے پاک اِلہامی کلام میں لکھا ہے، ’’جو مسکینوں کو دیتا ہے مُحتاج نہ ہو گا لیکن جو آنکھ چُراتا ہے بہت ملعُون ہو گا۔‘‘ (امثال ۲۸:۲۷) اِس کا مطلب یہ ہُوا کہ جو لوگ غریبوں کو دینے کے قابل ہیں اور نہیں دیتے تو وہ خدا کی نظر میں ملعُون ہیں لہذا ہمیں چاہیے کبھی کسی کی مدد سے آنکھ نہ چُرائیں۔
مگر دوسری طرف ایسے لوگ بھی ہیں جو سمجھتے ہیں کہ خدا کی راہ میں دینا اُنہیں سیدھا جنت میں لے جائے گا، خواہ وہ کِتنے ہی گناہگار کیوں ہوں۔ مگر کیا اپنے گناہ بخشوانے اور جنت میں جانے کا یہی ایک راستہ ہے؟ کیا جنت کا ہمارا تصور اور خدا کی جنت ایک ہی ہیں؟ جنت ہے کیا؟ کیا ہم جنت میں جا سکتے ہیں؟ اِس میں تو کوئی شک نہیں کہ خدا اپنے وفادار و نیک بندوں کو جنت میں لاتا ہے۔
جی ہاں، خدا جنت میں لاتا ہے، اور خدا کی یہی وہ خصُوصیت ہے جس کا ہم اپنے اگلے پروگرام میں ذِکر کریں گے، ضرور سُنیئے گا۔