آج گستاخی و کفر کا فتویٰ لگانا ایک رواج سا بن گیا ہے۔ اِس بارے میں ہر شخص نے اپنی ہی تشریح اور اپنا ہی عدالتی پیمانہ بنا رکھا ہے، اِسی لئے ہر روز کسی معصُوم کو کفر کا بے بُنیاد اِلزام لگا کر یا تو جیل میں بند کر دیا یا موت کے گھاٹ اُتار دیا جاتا ہے۔ اَب تو حال یہ ہے کہ لوگ اپنی عزتیں اور جانیں بچاتے پھرتے ہیں، ہر وقت ایک ڈر سا لگا رہتا ہے کہ کہیں سے کوئی کفر کا فتویٰ لگا کر زندگی عذاب میں نہ ڈال دے۔ کسی کے ساتھ ذرا سی رنجش ہوئی یا کاروبار یا جائداد کا جھگڑا ہُوا تو اُس پر جھٹ سے کفر کا فتویٰ لگا دیا، اور دیکھتے ہی دیکھتے لوگوں کا ٹھاٹھیں مارتا ہُوا ہجوم ڈنڈے سوٹے لے کر اُس کے گھر کے گِرد جمع ہو جائے گا اور سب کچھ جلا کر بھسم کر دے گا اور اگر پھر بھی اِنتقام و غیرت کی آگ ٹھنڈی نہ ہوئی تو کسی معصُوم کو اُٹھا کر شُعلے اُگلتی آگ کی بھٹی میں پھینک دیا جائے گا۔
آئیے دیکھتے ہیں کہ مسیحی تعلیم کے مطابق کفر کیا ہے۔ کفر کا مطلب ہے، چھپانا، ڈھانپنا، اِنکار کرنا یعنی خدا کی سچائیوں، حقیقتوں، برکتوں، نعمتوں، بخشِشوں، رحمتوں، خدا کی نجات، خدا کے بیٹے مسیح یسوع کی صلیب پر قربانی و کفارہ، تیسرے دِن مُردوں میں جی اُٹھنا، اِنجیل کی خوشخبری کو چھپانا اور اِنکار، خاص طور پر خدا کے پاک رُوح کے خلاف گناہ کفر ہے جس کی کسی طرح سے بھی مُعافی نہیں۔ خداوند یسوع مسیح نے اپنے زندہ اِلہامی کلام میں خود فرمایا، ’’…مَیں تم سے کہتا ہوں کہ آدمیوں کا ہر گناہ اور کفر تو مُعاف کِیا جائے گا مگر جو کفر رُوح کے حق میں ہو وہ مُعاف نہ کِیا جائے گا، اور جو کوئی ابنِ آدم کے برخلاف کوئی بات کہے گا وہ تو اُسے مُعاف کی جائے گی مگر جو کوئی رُوح اُلقدس کے خلاف کوئی بات کہے گا وہ اُسے معاف نہ کی جائے گی، نہ اِس عالم میں نہ آنے والے میں۔‘‘ (متی ۱۲:۳۱-۳۲) ذہن میں رہے کہ رُوحِ پاک کے بارے میں یہ حکم کسی اَور نے نہیں بلکہ خود مسیح یسوع نے دیا ہے۔ مگر سوال یہ ہے کہ رُوحِ پاک ہے کیا؟ جب خداوند یسوع مسیح کا زمین سے آسمان پر جانے کا وقت قریب آیا تو اُنہوں نے اپنے پیروکاروں کو یقین دِلاتے ہوئے کہا، ’’…مَیں باپ (یعنی خدا) سے درخواست کروں گا تو وہ تمہیں دوسرا مددگار بخشے گا کہ اَبد تک تمہارے ساتھ رہے یعنی سچائی کا رُوح جِسے دُنیا حاصل نہیں کر سکتی کیونکہ نہ اُسے دیکھتی اور نہ جانتی ہے، تم اُسے جانتے ہو کیونکہ وہ تمہارے ساتھ رہتا ہے اور تمہارے اندر ہو گا۔‘‘ (یُوحنا ۱۴:۱۶-۱۷) ایک اَور مقام پر اُنہوں نے اِسی بارے میں فرمایا، ’’لیکن جب وہ مددگار آئے گا جس کو مَیں تمہارے پاس باپ کی طرف سے بھیجوں گا یعنی سچائی کا رُوح جو باپ سے صادِر ہوتا ہے تو وہ میری گواہی دے گا۔‘‘ (یُوحنا ۱۵:۲۶) اور یُوحنا رسول نے رُوح اُلقدس کو آسمان سے مسیح یسوع پر اُترتے دیکھا اور اُس کی یوں گواہی دی۔ ’’…مَیں نے رُوح کو کبُوتر کی طرح آسمان سے اُترتے دیکھا ہے اور وہ اُس پر (یعنی مسیح پر) ٹھہر گیا، اور مَیں تو اُسے پہچانتا نہ تھا مگر جس نے (یعنی خدا نے) مجھے پانی سے بپتسمہ دینے کو بھیجا اُسی نے مجھ سے کہا کہ جس پر تُو رُوح کو اُترتے اور ٹھہرتے دیکھے وہی رُوح اُلقدس سے بپتسمہ دینے والا ہے۔ چنانچہ مَیں نے دیکھا اور گواہی دی کہ یہ خدا کا بیٹا ہے۔‘‘ (یُوحنا ۱:۳۲-۳۴) یہ ایک وجہ ہے کہ رُوح اُلقدس کے خلاف گستاخی و کفر کا گناہ کبھی مُعاف نہیں کِیا جائے گا بلکہ اِس کی سزا موت ہے۔ ایک مسیحی اور غیر مسیحی میں بُنیادی فرق یہ ہے کہ مسیح کے پیروکار خدا، مسیح اور رُوح اُلقدس کے خلاف کفر بکنے پر کبھی کسی کا نہ تو سَر قلم کریں گے اور نہ ہی کسی کو گولیوں سے چھلنی یا آگ کی بھٹی میں پھینکیں گے کیونکہ وہ جانتے ہیں کہ کفر کا گناہ خدا کے خلاف کِیا گیا ہے لہذا خدا ہی اپنے وقت پر اِس کا بدلہ لے گا۔
جیسا کہ آپ جانتے ہیں کہ خدا کا پاک اِلہامی کلام بائبل مُقدس دو عہدوں پر مُشتمل ہے، پُرانا عہدنامہ اور نیا عہدنامہ۔ اگر ہم پُرانے عہدنامہ کا مطالعہ کریں تو واضح ہو گا کہ چار ایسے گناہ ہیں جو خدا کے خلاف گستاخی و کفر ہیں۔ پہلا، خدائے قدُوس کی شان میں کوئی نازیبا بات کہنا یا خدا کے برابر کسی کو ٹھہرانا یا خدا کے علاوہ کسی اَور کی عبادت و پرستش کرنا، جو کوئی یہ گستاخی کرے گا اُس کی سزا موت ہے کیونکہ پاک کلام میں خدا کا یہ حکم بالکل صاف ہے، ’’تم اپنے لئے بُت نہ بنانا اور نہ کوئی تراشی ہوئی مُورت یا لاٹ اپنے لئے کھڑی کرنا اور نہ اپنے مُلک میں کوئی شبیہ دار پتھر رکھنا کہ اُسے سجدہ کرو اِس لئے کہ مَیں خداوند تمہارا خدا ہوں۔ تم میرے سبتوں کو ماننا اور میرے مقدس کی تعظیم کرنا۔ مَیں خداوند ہوں۔‘‘ (احبار ۲۶:۱-۲) اَب اگر کوئی خدا کے اِس حکم کی نافرمانی کرتے ہوئے گستاخی و کفر کا مُرتکب ہوتا ہے تو یقیناً اِس کی سزا موت ہے۔ خداوند خدا نے موسیٰ کو حکم دیتے ہوئے کہا، ’’…تُو بنی اِسرائیل سے کہہ دے کہ جو کوئی اپنے خدا پر لعنت کرے اُس کا گناہ اُسی کے سَر لگے گا، اور وہ جو خداوند کے نام پر کفر بکے ضرور جان سے مارا جائے۔‘‘ (احبار ۲۴:۱۵-۱۶)
اِسی طرح نبی کے خلاف بات کرنا بھی گستاخی و کفر ہے۔ یہودی توریت کے مطابق موسیٰ کو سب سے بڑا نبی مانتے ہیں۔ اگر کوئی موسیٰ کے خلاف کچھ کہتا تو وہ بھی گستاخی و کفر گِنا جاتا۔ خدا کا عظیم خادِم ستفنُس اِلٰہی فضل و قوت اور دانائی و رُوح سے کلام کرتا اور بڑے عجیب کام اور نشان ظاہر کرتا تھا مگر لوگ حسد کی آگ میں جل اُٹھے۔ ’’اِس پر اُنہوں نے بعض آدمیوں کو سِکھا کر کہلوا دیا کہ ہم نے اِس کو موسیٰ اور خدا کے برخلاف کفر کی باتیں کرتے سُنا۔ پھر وہ عوام اور بزرگوں اور فقیہوں کو اُبھار کر اُس پر چڑھ گئے اور پکڑ کر صدرِ عدالت میں لے گئے اور جھوٹے گواہ کھڑے کِئے، جنہوں نے کہا کہ یہ شخص اِس پاک مقام اور شریعت کے برخلاف بولنے سے باز نہیں آتا کیونکہ ہم نے اُسے یہ کہتے سُنا ہے کہ وہی یسوع ناصری اِس مقام کو برباد کر دے گا اور اُن رسموں کو بدل ڈالے گا جو موسیٰ نے ہمیں سُونپی ہیں۔‘‘ (اعمال ۶:۱۱-۱۴) آپ نے دیکھا کہ یہودی موسیٰ کا بطور نبی کِتنا احترام کرتے تھے اور اُس کے خلاف بولنا گستاخی و کفر سمجھتے تھے۔
ہودیوں کے نزدیک تیسرے نمبر پر گستاخی و کفر موسوی شریعت کے خلاف بات کرنا تھا یعنی اگر کوئی شریعت کے خلاف کچھ کہتا یا حکم توڑتا تو وہ بھی گستاخی و کفر ہے۔ مسیح یسوع نے سبت کے دِن ایک بیمار کو شِفا دی تو یہودیوں سے یہ برداشت نہ ہو سکا کیونکہ وہ سمجھتے تھے کہ یہ شریعت کے خلاف گستاخی و کفر ہے لہذا وہ اُسے ستانے لگے کہ یہ سبت کے دِن ایسے کام کرتا ہے۔ ’’لیکن یسوع نے اُن سے کہا کہ میرا باپ (یعنی خدا) اَب تک کام کرتا ہے اور مَیں بھی کام کرتا ہوں۔ اِس سبب سے یہودی اَور بھی زیادہ اُسے قتل کرنے کی کوشش کرنے لگے کہ وہ نہ فقط سبت کا حکم توڑتا ہے بلکہ خدا کو خاص اپنا باپ کہہ کر اپنے آپ کو خدا کے برابر بناتا تھا۔‘‘ (یُوحنا ۵:۱۷-۱۸) اِس سے صاف ظاہر ہُوا کہ یہودی تعلیم کے مطابق خدا کے خلاف بولنا، اُن کے نبی یعنی موسیٰ کو بُرا بھلا کہنا اور شریعت کے حکموں کو توڑنا گستاخی و کفر ہے۔
اِس کے علاوہ چوتھے نمبر پر ہیکل کی بے حُرمتی یا خلاف کوئی بات کرنا بھی گستاخی و کفر ہے۔ یہودیوں نے مسیح یسوع پر ہیکل یعنی خدا کی عبادت گاہ کی توہین کا اِلزام بھی لگایا۔ چلئیے آئیے دیکھتے ہیں پھر کیا ہُوا۔ ’’یہودیوں کی عیدِ فسح نزدیک تھی اور یسوع یروشلیم کو گیا۔ اُس نے ہیکل میں بیل اور بھیڑ اور کبُوتر بیچنے والوں کو اور صرافوں کو بیٹھے پایا، اور رسیوں کا کوڑا بنا کر سب کو یعنی بھیڑوں اور بیلوں کو ہیکل سے نکال دیا اور صرافوں کی نقدی بکھیر دی اور اُن کے تختے اُلٹ دیئے، اور کبُوتر فروشوں سے کہا، اِن کو یہاں سے لے جائو۔ میرے باپ (یعنی خدا) کے گھر کو تجارت کا گھر نہ بنائو۔ اُس کے شاگردوں کو یاد آیا کہ لکھا ہے، تیرے گھر کی غیرت مجھے کھا جائے گی۔ پس یہودیوں نے جواب میں اُس سے کہا، تُو جو اِن کاموں کو کرتا ہے ہمیں کونسا نشان دِکھاتا ہے؟ یسوع نے جواب میں اُن سے کہا، اِس مَقدِس کو ڈھا دو تو مَیں اُسے تین دِن میں کھڑا کر دُوں گا۔ یہودیوں نے کہا، چھیالیس برس میں یہ مَقدِس بنا ہے اور کیا تُو اُسے تین دِن میں کھڑا کر دے گا؟ مگر اُس نے اپنے بدن کے مَقدِس کی بابت کہا تھا۔ پس جب وہ مُردوں میں سے جی اُٹھا تو اُس کے شاگردوں کو یاد آیا کہ اُس نے یہ کہا تھا اور اُنہوں نے کتابِ مُقدس اور اُس قول کا جو یسوع نے کہا تھا، یقین کِیا۔‘‘ (یُوحنا ۲:۱۳-۲۲)
یہودیوں کی آنکھوں پر شیطان نے جاہلیت و تکبر کی پٹی باندھ رکھی تھی کہ وہ خدائے واحد کو اپنے سامنے دیکھ کر بھی اُس کی الُوہیت کو پہچان نہ سکے۔ جس خدا کے خلاف بولنا گستاخی و کفر تھا وہ اُن کے سامنے کھڑا تھا، جس بڑے نبی یعنی موسیٰ کے خلاف بات کرنا اُن کے نزدیک گستاخی و کفر تھا، اُس سے کہیں عظیم، افضل و اعلیٰ کُل دُنیا کا خالق و مالک اُن کے سامنے کھڑا تھا۔ جس شریعت کے خلاف بولنا گستاخی و کفر تھا، اُسی شریعت کا دینے والا اُن کے سامنے کھڑا تھا اور جس پر ہیکل کی بے حُرمتی کا الزام لگا کر گستاخی و کفر کا فتویٰ لگایا، اور جس خدائے واحد کی وہ دِن رات پرستش و عبادت کرتے تھے، حمد و تمجید کے لائق وہی خدا اُن کے سامنے کھڑا تھا، مگر افسوس کے وہ خدا کو اپنے قریب دیکھ کر بھی اُس کے پاس آنے سے محرُوم رہے۔ ریاکار یہودیوں کی طرح آج بھی بہت سے لوگ اپنے دِلوں کی سختی کے باعث مسیح یسوع میں خدا کو پہچاننے سے محرُوم ہیں، بلکہ گستاخی و کفر کا فتویٰ لگا کر خدا کے لوگوں کو ستاتے اور تنگ کرتے ہیں۔ آئیے اُن کے لئے بھی دُعا کریں کہ خدا اُن کے بند ذہنوں کو کھولے تاکہ وہ مسیح یسوع میں خدا کی نجات کو پہچان سکیں۔
اَب ہم خدا کی جس خصوُصیت پر روشنی ڈالیں گے اُس کے بارے میں بہت سے لوگ غلط فہمی کا شکار ہیں اور نہیں جانتے کہ جس پاکیزہ رشتے کو وہ جسمانی خواہشات کے تابع رہتے ہوئے پامال کر رہے ہیں اُس کی بُنیاد خدا نے خود آسمان پر رکھی اور فرمایا، ’’…جِسے خدا نے جوڑا ہے اُسے آدمی جُدا نہ کرے۔‘‘ (مرقس ۱۰:۹) اِسی لئے خدا کے ہاں طلاق قابلِ قبول نہیں بلکہ خدا طلاق سے نفرت کرتا ہے، خدا کی یہی وہ خصوُصیت ہے جس کا ہم اپنے اگلے پروگرام میں ذِکر کریں گے، ضرور سُنئیے گا۔