یہ ایک بہت ہی عجیب سی بات ہو گی کہ دُنیا میں کوئی قدرتی آفات سے دُکھ تکلیف نہ سہہ رہا ہو، دُنیا کے ایک کونے میں آتش فشاں پہاڑ پھٹنے سے ہنستے بستے گھروں اور سرسبز و شاداب کھیتوں میں گرم کیچڑ اور خاک نے تباہی مچا رکھی ہے، اور دوسرے کونے میں پہاڑ کا تودا گرنے سے راستے تباہ و برباد ہو گئے ہیں، اور کہیں زلزلے نے شہروں کے شہر کھنڈرات کا ڈھیر بنا دئیے ہیں، اور کہیں طوفانی آندھی لوگوں کو گھر سے بے گھر کر رہی ہے، کہیں ٹڈیوں کے بے پناہ ہجوم نے کٹائی کے لئے تیار فصلوں کو تباہ و برباد کر دیا ہے، اور کہیں سمندری لہریں اپنے ساتھ گائوں کے گائوں بہا لے گئیں ہیں، کہیں جنگل میں بھڑکتی آگ نے آس پاس کی عمارتوں کو جلا کر رکھ کا ڈھیر بنا دیا ہے، اور ہر طرف اِس قدر گہرا دُھواں پھیلا ہُوا ہے کہ سانس لینا مشکل ہو رہا ہے، غرض کسی جگہ قحط نے تباہی مچا رکھی ہے اور کسی جگہ سیلاب اپنے ساتھ سب کچھ بہا لے گیا ہے۔
اَب سوال یہ ہے کہ ایسا ’’کیوں‘‘ ہوتا ہے؟ خدا قدرتی آفات کیوں آنے دیتا ہے؟ وہ ہر سال لاکھوں کروڑوں کو دُکھ تکلیف اور رنج و الم سے کیوں گزرنے دیتا ہے؟
جب کبھی قدرتی آفات نازل ہوتی ہیں تو بہت سے لوگ سمجھتے ہیں کہ یہ آسمانی عذاب ہے جو ہمیں سزا کے طور پر مِل رہا ہے۔ ممکن ہے یہ ایک وجہ ہو جس کے سبب سے ہمیں قدرتی آفات سے گزرنا پڑتا ہے۔ بائبل مقدس حضرت نوح کے سیلاب سے پہلے کے زمانے کا بیان یوں کرتی ہے، ’’اور خداوند نے دیکھا کہ زمین پر اِنسان کی بدی بہت بڑھ گئی اور اُس کے دِل کے تصور اور خیال سدا بُرے ہی ہوتے ہیں، تب خداوند زمین پر اِنسان کو پیدا کرنے سے ملول ہُوا اور دِل میں غم کِیا، اور خداوند نے کہا کہ مَیں اِنسان کو جِسے مَیں نے پیدا کِیا رُویِ زمین پر سے مِٹا ڈالوں گا، اِنسان سے لے کر حیوان اور رینگنے والے جاندار اور ہَوا کے پرندوں تک کیونکہ مَیں اُن کے بنانے سے ملول ہوں۔‘‘ (پیدایش ۶:۵-۷)
اِسی طرح جب خدا نے کنعان کا ملک اسرائیلیوں کو دے دیا، تو اُس نے اُن کو خبردار کِیا کہ اگر اُنہوں نے اُس کی شریعت کی پابندی نہ کی تو اُس کے نتائج کیا ہوں گے، لکھا ہے، ’’خداوند اُن سب کاموں میں جن کو تُو ہاتھ لگائے لعنت اور اِضطراب اور پھٹکار کو تجھ پر نازل کرے گا جب تک تُو ہلاک ہو کر جلد نیست و نابود نہ ہو جائے، یہ تیری اُن بداعمالیوں کے سبب سے ہو گا جن کو کرنے کی وجہ سے تُو مجھ کو چھوڑ دے گا، خداوند ایسا کرے گا کہ وبا تجھ سے لپٹی رہے گی جب تک کہ وہ تجھ کو اُس ملک سے جس پر قبضہ کرنے کو تُو وہاں جا رہا ہے فنا نہ کر دے، خداوند تجھ کو تپِ دِق اور بخار اور سوزش اور شدید حرارت اور تلوار اور بادِ سموم اور گیروئی سے مارے گا اور یہ تیرے پیچھے پڑے رہیں گے جب تک کہ تُو فنا نہ ہو جائے، اور آسمان جو تیرے سَر پر ہے پیتل کا اور زمین جو تیرے نیچے ہے لوہے کی ہو جائے گی، خداوند مینہ کے بدلے تیری زمین پر خاک اور دُھول برسائے گا، یہ آسمان سے تجھ پر پڑتی ہی رہے گی جب تک کہ تُو ہلاک نہ ہو جائے۔‘‘ (اِستثنا ۲۸:۲۰-۲۴)
اِن حوالاجات کے علاوہ بھی بائبل مقدس میں بہت سے بیانات ہیں جن کی روشنی میں ہم اپنے آپ سے پوچھ سکتے ہیں کہ قدرتی آفت جو ہم پر آن پڑی ہے، کیا خدا سے دُوری کے سبب سے ہمارے اپنے ہی اعمال و فعل کا نتیجہ ہے، کیا ہم اپنے ہی گناہوں اور باغیانہ روِش کی فصل کاٹ رہے ہیں؟ اگر ایسا ہے تو ہمیں اپنے گناہوں سے توبہ کر کے پھر سے خدا کی طرف لوٹنا ہے۔ پاک کلام میں اِس بارے میں لکھا ہے، ’’…خداوند تمہار خدا غفورو رحیم ہے اور اگر تم اُس کی طرف پِھرو تو وہ تم سے اپنا منہ پھیر نہ لے گا۔‘‘ (۲-تواریخ ۳۰:۹)
لیکن ہم پر قدرتی آفات صرف ہمارے اپنے گناہوں کے سبب سے ہی نازل نہیں ہوئیں، اِن کی کئی اَور وجوہات بھی ہو سکتی ہیں، جیسا کہ حضرت سلیمان نے کہا، ’’پھر مَیں نے توجہ کی اور دیکھا کہ دُنیا میں نہ تو دوڑ میں تیز رفتار کو سبقت ہے نہ جنگ میں زور آور کو فتح اور نہ روٹی دانشمند کو ملتی ہے نہ دولت عقلمندوں کو اور نہ عزت اہلِ خرد بلکہ اُن سب کے لئے وقت اور حادثہ ہے۔‘‘ (واعظ ۹:۱۱)
اِس کی روشنی میں ہمیں پہلے ہی سے یہ اخذ نہیں کر لینا چاہیے کہ آفت گناہ کی سبب سے ہے، اور نہ ہی یہ سوچ لینا چاہیے کہ جو آفات سے بچ گئے ہیں وہ زیادہ نیک و پارسا ہیں، ایسی ہی آفات کے بارے میں مسیح یسوع نے فرمایا، ’’…اِن گلیلیوں نے جو ایسا دُکھ پایا، کیا وہ اِس لئے تمہاری دانست میں اور سب گلیلیوں سے زیادہ گناہگار تھے؟ مَیں تم سے کہتا ہوں کہ نہیں بلکہ اگر تم توبہ نہ کرو گے تو سب اسی طرح ہلاک ہو گے، یا کیا وہ اٹھارہ آدمی جن پر شیلوخ کا بُرج گِرا اور دَب کر مَر گئے، تمہاری دانست میں یروشلیم کے اَور سب رہنے والوں سے زیادہ قصوروار تھے؟ مَیں تم سے کہتا ہوں کہ نہیں بلکہ اگر تم توبہ نہ کرو گے تو سب اِسی طرح ہلاک ہو گے۔‘‘ (لوقا ۱۳:۲-۵)
گناہ کے علاوہ وہ کون کی وجوہات ہیں جن کے سبب سے قدرتی آفات نازل ہوتی ہیں؟ ایک سبب کا بیان حضرت ایوب کی کتاب میں ہے، ’’عُوض کی سَرزمین میں ایوب نام کا ایک شخص تھا، وہ شخص کامِل اور رستباز تھا اور خدا سے ڈرتا اور بدی سے دُور رہتا تھا، اُس کے ہاں سات بیٹے اور تین بیٹیاں پیدا ہوئیں، اُس کے پاس سات ہزار بھیڑیں اور تین ہزار اُونٹ اور پانچ سو جوڑی بیل اور پانچ سو گدھیاں اور بہت سے نوکر چاکر تھے، ایسا کہ اہلِ مشرق میں وہ سب سے بڑا آدمی تھا۔‘‘ (ایوب ۱:۱-۳)
اِس کے باوجود کہ ایوب نیک و پارسا اور بے اِلزام تھا پھر بھی اُس کو بہت بھاری آفتوں اور مصیبتوں سے گزرنا پڑا، قاتلوں اور لٹیروں نے اُس کے بیل، گدھے اور اُونٹ اُس کے نوکروں کو موت کے گھاٹ اُتار کے چُرا لئے۔ اُس کی بھیڑیں اور اُن کے چرواہے آسمان سے برستی ہوئی آگ نے تباہ و برباد کر دیئے۔ آندھی اور طوفان نے اُس کے گھر کو نیست و نابود کر دیا جس سے سارے بچے اور اُن کی خدمت کرنے والے نوکر ہلاک ہو گئے۔ اور یہی نہیں، ایوب کی اپنی صحت بھی خراب ہو گئی، سَر سے پائوں تک اُس کے جسم پر پھوڑے پھنسیاں اور ناسور نکل آئے۔ وہ خاک کے ڈھیر پر بیٹھ کر اپنے بدن کو مٹی کے ٹھیکرے سے کُھرچنے لگا۔ یہاں تک کہ اُس کی بیوی بھی اُس کے خلاف ہو گئی۔
ایوب کے ساتھ ایسا کیوں ہُوا؟ کیا اُس نے کوئی گناہ کِیا جس کی اُسے سزا مِل رہی تھی؟ اُس کے دوستوں کا یہی خیال تھا کہ ایوب نے کچھ نہ کچھ ایسا ضرور کِیا ہے جس کی وہ سزا بھگت رہا تھا، اپنی لمبی لمبی تقریروں میں اُنہوں نے ایوب پر یہ ثابت کرنے کی کوشش کی کہ وہ خدا سے اپنے گناہوں کی معافی مانگے، مثال کے طور پر اُن میں سے ایک نے کہا، ’’کیا تجھے یاد ہے کہ کبھی کوئی معصوم بھی ہلاک ہُوا ہے؟ یا کہیں راستباز بھی کاٹ ڈالے گئے؟ میرے دیکھنے میں تو جو گناہ کو جوتتے اور دُکھ بُوتے ہیں وہی اُس کو کاٹتے ہیں۔‘‘ (ایوب ۴:۷-۸)
ایوب کے دوسرے نے دوست کہا، ’’کیا خدا بے اِنصافی کرتا ہے؟ کیا قادرِ مطلق عدل کا خون کرتا ہے؟ اگر تیرے فرزندوں نے اُس کا گناہ کِیا ہے اور اُس نے اُنہیں اُن ہی کی خطا کے حوالہ کر دیا، تو بھی اگر تُو خدا کو خوب ڈھونڈتا اور قادرِ مطلق کے حضور مِنت کرتا تو اگر تُو پاک دِل اور راستباز ہوتا تو وہ ضرور اَب تیرے لئے بیدار ہو جاتا اور تیری راستبازی کے مسکن کو بُرومندکرتا۔‘‘ (ایوب ۸:۳-۶)
جب ایوب نے احتجاج کرتے ہوئے کہا کہ وہ بالکل معصوم ہے، اور اُس نے ایسا کچھ نہیں کِیا جس کے سبب سے مصیبتیں اور تکلیفیں اُس پر آن پڑی ہیں، تو اُس کے ایک دوست نے کہا، ’’اِنسان ہے کیا کہ وہ پاک ہو؟ اور وہ جو عورت سے پیدا ہُوا کیا ہے کہ صادِق ہو؟ دیکھ! وہ اپنے قدسیوں کا اعتبار نہیں کرتا بلکہ آسمان بھی اُس کی نظر میں پاک نہیں، پھر بھلا اُس کا کیا ذکر جو گھنونا اور خراب ہے یعنی وہ آدمی جو بدی کو پانی کی طرح پیتا ہے؟‘‘ (ایوب ۱۵:۱۶-۴۱)
ایوب کے دوستوں نے یہاں تک اِنتہا کر دی کہ اُس کے گناہوں کی فہرست گِنوانا شروع کر دی جو اُس نے کِئے ہوں گے۔ کیا ایوب واقعی مجرم و قصوروار تھا؟ نہیں، جیسا کہ ہم پہلے ہی دیکھ چکے ہیں کہ وہ نیک، پارسا و راستباز تھا۔
تو پھر سوال یہ ہے کہ اُس پر اِتنی سنگین آفتیں اور مصیبتیں کیوں آئیِں؟ اُس پر یہ رنج و غم کا پہاڑ اِس لئے گِرا کہ وہ بے اِلزام، پاک و پارسا تھا۔ شیطان نے اُس پر الزام لگایا کہ وہ اِس لئے خدا کی خدمت کرتا ہے کیونکہ خدا نے اُسے دُنیا کی نعمتوں اور برکتوں سے نوازا ہُوا ہے، تو خدا نے شطان کو اجازت دی کہ وہ ایوب سے سب کچھ چھیں لے، یہاں تک کہ اُس کی صحت بھی برباد کر دے، صرف یہ بتانے کے لئے کہ وہ صاف دِل اور نیت سے میری خدمت کرتا ہے نہ کہ دُنیاوی مال و دولت کے لالچ میں۔ جب ایوب نے اپنے ایمان اور خدا سے محبت کا بے مثال مظاہرہ کِیا تو خدا نے اُس کی حیثیت و رتبہ کو اَور بھی سَربلند کِیا اور اُس کو پہلے سے کہیں زیادہ مال و دولت سے نوازا۔
حضرت ایوب کی طرح ہم بھی نہیں جانتے کہ ہم دُکھ تکلیف کیوں سہہ رہے ہیں۔ ممکن ہے کہ ہم نیک و راستباز ہیں مگر پھر بھی دُکھوں اور تکلیفوں سے گزر رہے ہیں، جہاں تک ایوب کی بات ہے تو وہ اِس لئے تمام آفتوں اور مصیبتوں کو برداشت کر رہا تھا کہ اُس کا پکا یقین و ایمان تھا کہ ایک دِن خدا اُس کی ساری مصیبتیں اور تکلیفیں ختم کر دے گا، اُس نے کہا، ’’لیکن مَیں جانتا ہوں کہ میرا مخلصی دینے ولا زندہ ہے، اور آخرِ کار وہ زمین پر کھڑا ہو گا، اور اپنی کھال کے اِس طرح برباد ہو جانے کے بعد بھی، مَیں اپنے اِس جسم میں سے خدا کو دیکھوں گا، جِسے مَیں خود دیکھوں گا اور میری ہی آنکھیں دیکھیں گی نہ کے بیگانہ کی، میرے گردے میرے اندر فنا ہو گئے ہیں۔‘‘ (ایوب ۱۹:۲۵-۲۷)
جس مخلصی دینے والے کا ذکر ایوب کر رہا ہے وہ مسیح یسوع ہے۔ وہی ہے جس کے وسیلے سے ہمیں مُستقبل کی اُمید ہو سکتی ہے، وہی ہے جس کے خون کے وسیلے سے ہم خدا کے تخت کے سامنے دلیری سے کھڑے ہو سکتے ہیں، جیسا کہ پولس رسول نے لکھا ہے، ’’خداوند مجھے ہر ایک بُرے کام سے چھڑائے گا، اور اپنی آسمانی بادشاہی میں صحیح سلامت پہنچا دے گا، اُس کی تمجید ابدُالآباد ہوتی رہے، آمین۔‘‘ (۲-تیمتھیس ۴:۱۸)
کیا آپ مسیح کے ہیں؟ کیا آپ اُس کی پیروی کر رہے ہیں؟