Skip to content

خدا خود مُختار ہے

Posted in خُدا کی تلاش

کسی بھی مُلک کا سربراہ یا حکمران اپنی ریاستی حدُود میں خود مختار ہوتا ہے یعنی وہ جیسے چاہے حکومت کرے۔ وہ مُلک و قوم کی بہتری کے لئے قانون نافذ کرتا ہے اور چاہتا ہے کہ ہر کوئی مُلکی قوانین پر عمل کرے اور جو خلاف ورزی کرے اُسے سزا دے۔ اُسے نہ صرف اپنے عوام کی فلاح و بہبود کا خیال ہوتا ہے بلکہ یہ بھی کہ اپنے مُلک کی سرحدوں کی حفاظت کرے تاکہ لوگ امن و امان سے بغیر کسی فکر و پریشانی کے کاروبارِ زندگی میں مصرُوف رہیں۔ لیکن آج ہم دُنیا کے حاکموں اور بادشاہوں کی نہیں بلکہ خود مُختاروں کے خود مُختار خدائے بزرگ و برتر کی بات کریں گے۔

مسیحیت میں خدا کی خود مُختاری ایک نہایت اہم خصوصیت ہے۔ بائبل مُقدس میں خدا کی خود مُختاری کو بادشاہت سے تشبیہ دی گئی ہے کیونکہ وہ زمین و آسمان کا تخلیق کار، حکمران اور مالِک ہے۔ کوئی اُس کی مخالفت نہیں کر سکتا اور نہ اُس کے کاموں میں مداخلت کر سکتا ہے کیونکہ وہ قادِر مُطلق خدا ہے۔ کیا جس نے آسمان، چاند، ستاروں کو اپنے ہاتھ سے بنا کر ایک مخصوص جگہ پر رکھا، کسی بشر کی مداخلت پسند کرے گا؟ خدا کا عظیم بندہ دائود نبی خداوند خدا کے بارے میں کہتا ہے، ’’جب مَیں تیرے آسمان پر جو تیری دستکاری ہے، اور چاند اور ستاروں پر جن کو تُو نے مُقرر کِیا غور کرتا ہوں تو پھر اِنسان کیا ہے کہ تُو اُسے یاد رکھے اور آدم زاد کیا ہے کہ تُو اُس کی خبر لے؟‘‘ (زبور ۸:۳-۴) بائبل مُقدس میں ایک اَور مقام پر لکھا ہے، ’’کیونکہ جس قدر آسمان زمین سے بلند ہے اُسی قدر میری راہیں تمہاری

راہوں سے اور میرے خیال تمہارے خیالوں سے بلند ہیں۔‘‘ (یسعیاہ ۵۵:۹)

خدا کی خود مُختاری اُس کی ہمہ جائی یعنی ہر جگہ موجودگی، ہمہ دانی یعنی علمِ غیب رکھنے کی صلاحیت، قدرتِ کاملہ یعنی پوری پوری قدرت رکھنے کی اہلیت کا قدرتی نتیجہ ہے۔ لکھا ہے، ’’ہمارا خداوند بزرگ اور قدرت میں عظیم ہے۔ اُس کے فہم کی اِنتہا نہیں۔‘‘ (زبور۱۴۷:۵) خدا کا نیک بندہ موسیٰ زبور کی اِلہامی کتاب میں کہتا ہے، ’’اِس سے پیشتر کے پہاڑ پیدا ہوئے یا زمین اور دُنیا کو تُو نے بنایا، ازل سے ابد تک تُو ہی خدا ہے۔‘‘ (زبور۹۰:۲) خداوند خدا نے بنی اِسرائیل کو فرعون کی غلامی سے چھڑانے کے لئے اپنے بندے موسیٰ کو تیار کِیا تو اُس نے پوچھا کہ مَیں کیا کہوں کہ کِس نے بھیجا ہے تو خدا نے فرمایا، ’’…مَیں جو ہوں سو مَیں ہوں۔ سو تُو بنی اِسرائیل سے یوں کہنا کہ مَیں جو ہوں نے مجھے تمہارے پاس بھیجا ہے۔‘‘ (خروج ۳:۱۴) اور پیدایش کی اِلہامی کتاب میں لکھا ہے، ’’خدا نے ابتدا میں زمین و آسمان کو پیدا کِیا۔‘‘ (پیدایش۱:۱) خدا کی یہ آسمانی خصوصیات اور خوبیاں واضح ثبوت ہیں کہ خدا کی خود مُختاری محدُود نہیں بلکہ لامحدُود ہے۔ خدا کے پاس پوری قدرت و طاقت ہے کہ کائنات میں جو ہونے والا ہے اُسے رُوک لے یا ہونے ہی نہ دے۔ اور اگر کچھ ہوتا ہے تو وہ خدا کے اِختیار اور مرضی سے ہی ہوتا ہے۔ پاک کلام میں خداوند خدا فرماتا ہے، ’’…مَیں خدا ہوں اور کوئی دوسرا نہیں۔ مَیں خدا ہوں اور مجھ سا کوئی نہیں۔ جو ابتدا ہی سے انجام کی خبر دیتا ہوں اور ایامِ قدیم سے وہ باتیں جو اَب تک وقوع میں نہیں آئِیں بتاتا ہوں اور کہتا ہوں کہ میری مصلحت قائم رہے گی اور مَیں اپنی مرضی بالکل پوری کروں گا۔‘‘ (یسعیاہ ۴۶:۹-۱۰) بائبل مُقدس میں ایک اَور مقام پر خدا کی خود مُختاری کو یوں بیان کِیا گیا ہے، ’’اور زمین کے تمام باشندے ناچیز گنے جاتے ہیں اور وہ آسمانی لشکر اور اہلِ زمین کے ساتھ جو کچھ چاہتا ہے کرتا ہے اور کوئی نہیں جو اُس کا ہاتھ رُوک سکے یا اُس سے کہے کہ تُو کیا کرتا ہے؟‘‘ (دانی ایل ۴:۳۵)

اَب بہت سے مُلحد اور بے اِیمان لوگ خدا کی خود مُختاری پر اعتراض بھی کرتے ہیں کہ اگر ہر چیز خدا کی مرضی اور اِختیار میں ہے تو وہ دُنیا سے دُکھ، تکلیف، بیماری اور بُرائی ختم کیوں نہیں کر دیتا؟ مگر یہ نادان لوگ بھول جاتے ہیں کہ خدا کی خود مُختاری اِنسان کی سمجھ و فہم سے بالکل باہر ہے۔ اِنسانی دماغ سمجھ ہی نہیں سکتا کہ خدا کیوں دُنیا میں تکلیفوں، بیماریوں اور بُرائیوں کو ہونے دیتا ہے۔ اور سب سے اہم بات یہ ہے کہ دُنیا میں بیماریوں،  تکلیفوں اور بُرائیوں کو لانے والے ہم خود ہیں۔ کیونکہ ہم نے خود اپنی تباہی کا یہ راستہ چُنا ہے، خدا کبھی نہیں چاہتا کہ ہم سے ہماری پسند یعنی آزادی سے چُننے کا حق چھین لے۔ خدا نے ہمیں آزادی دے رکھی ہے کہ ہم اپنی پسند سے بُرائی اور اچھائی کا انتخاب کریں۔ جب خدا نے آدم اور حوا کو تخلیق کِیا تو وہ گناہ سے بالکل پاک تھے مگر خدا نے اُنہیں بھی اچھا بُرا راستہ چُننے کی آزادی دی۔ وہ چاہتے تو خدا پر مکمل بھروسہ کرتے اور وفادار رہتے، اور چاہتے تو اُس کی نافرمانی کرتے، مگر افسوس کہ اُنہوں نے شیطان پر بھروسہ کرتے ہوئے نافرمانی کو چُنا۔ یاد رہے کہ ہم اپنی مرضی سے اپنے فعل و عمل کو تو چُن سکتے ہیں مگر نتائج کو نہیں۔ اور آپ نے دیکھا کہ آدم اور حوا کی نافرمانی کے نتائج آج ہم بُھگت رہے ہیں۔ اِسی طرح ہمارے گناہوں اور بُرائیوں کے اثرات نہ صرف ہم پر بلکہ ہمارے اِرد گرد اور بعد میں آنے والوں پر بھی ہوں گے۔

خدا کی خود مُختاری ایک مسلسل عمل ہے اور اِس کا ہماری روزمرہ زندگی کے ساتھ گہرا تعلق ہے۔ یہی وہ اِلٰہی خصوصیت ہے جو ہمیں دُنیا کی پریشانیوں، تکلیفوں اور دُکھوں سے دُور رکھتی ہے۔ بائبل مُقدس خدا کی محبت بارے جو دعویٰ کرتی ہے ہمیں اُس پر مکمل بھروسہ اور یقین ہونا چاہیے کہ وہ نہ صرف ہم سے محبت کرتا ہے بلکہ ہماری نگہبانی و حفاظت بھی کرتا ہے۔ اور وہ جو خدا کے خاندان میں شامل ہیں اُس کے اِس وعدے پر مکمل اِیمان و اعتقاد رکھتے ہیں کہ خواہ دُکھ، تکلیف، مُصیبت، بیماری اور آزمائش کِتنی ہی بڑی اور کِتنی ہی جان لیوا کیوں نہ ہو خدا پھر بھی ہمارے لئے بھلائی پیدا کرے گا۔ پاک کلام میں لکھا ہے ’’اور ہم کو معلوم ہے کہ سب چیزیں مِل کر خدا سے محبت رکھنے والوں کے لئے بھلائی پیدا کرتی ہیں یعنی اُن کے لئے جو خدا کے اِرادہ کے مُوافق بُلائے گئے۔‘‘ (رومیوں ۸:۲۸)

لہذا بحیثیت مخلوق ہمارا فرض ہے کہ اپنے تخلیق کار پر پورا بھروسہ اور اِیمان رکھیں کہ وہ ہمارے حق میں وہی کرے گا جو ہمارے لئے اچھا ہے۔ پاک اِلہامی کلام میں کیا خوب لکھا ہے، ’’کیونکہ مَیں تمہارے حق میں اپنے خیالات کو جانتا ہوں۔ خداوند فرماتا ہے یعنی سلامتی کے خیالات، بُرائی کے نہیں تاکہ مَیں تم کو نیک انجام کی اُمید بخشوں۔‘‘ (یرمیاہ ۲۹:۱۱)

خدا نہ صرف ہماری سلامتی چاہتا ہے بلکہ ہمیں اُمید بھی بخشتا ہے۔ اِسی لئے اُس کی نظر ہم پر رہتی ہے، وہ خوب جانتا ہے کہ ہم کِن آفتوں، مُصیبتوں اور آزمایشوں سے گزر رہے ہیں، مگر وہ یہ بھی جانتا ہے کہ دُکھ، تکلیف، بیماری اور آزمایش ہمارے اندر اِیمان کی پختگی اور زندہ اُمید پیدا کرتی ہے۔ اِلہامی کلام میں لکھا ہے، ’’اَے میرے بھائیو! جب تم طرح طرح کی آزمایشوں میں پڑو تو اِس کو یہ جان کر کمال خوشی کی بات سمجھنا کہ تمہارے اِیمان کی آزمایش صبر پیدا کرتی ہے اور صبر کو اپنا پورا کام کرنے دو تاکہ تم پورے اور کامِل ہو جائو اور تم میں کسی بات کی کمی نہ رہے۔‘‘ (یعقوب ۱:۲-۴)

معزز سامعین! مسیحیت میں شامل ہونے کا مطلب دُکھوں، تکلیفوں، مُصیبتوں اور بیماریوں کا خاتمہ نہیں بلکہ اگر آزمایشوں میں پھنس جائیں تو خدا کو موقعہ دیں کہ وہ ہماری مدد و رہنمائی کرے خواہ ہمیں کِتنا ہی صبر اور اِنتظار کیوں نہ کرنا پڑے۔ آئیے دیکھتے ہیں کہ خدا نے آزمایشوں میں اپنے بندوں کی زندگی میں کیسے کام کِیا۔ خدا کے پیارے بندے نوح نبی نے خدا کے کہنے پر کشتی تیار کی اور پھر صبر سے سیلاب کا اِنتظار کِیا۔ ابرہام اپنی بیوی سارہ سے بچے کا خواہشمند تھا مگر اُسے سالوں صبر کرنا پڑا۔ یوسف کو سالوں جیل میں خدا کے اِرادے کا اِنتظار کرنا پڑا۔ خدا کا ایک اَور بندہ موسیٰ ۴۰ سال تک تپتے صحرا میں صبر سے خدا کی مرضی بجا لاتا رہا۔ حنا مسلسل صبر و تحمل سے بچے کے لئے روتی رہی۔ خدا کا پیارا بندہ دائود ۱۳ سال تک اپنے دُشمن بادشاہ سے ریگستان میں بھاگتا پھِرا۔ یرمیاہ نبی نے خدا کے پیغام کا پرچار کِیا مگر سالوں اُس کو کوئی پھل نظر نہیں آیا۔ خدا کا عظیم خادم پولس رسول بار بار جیل میں پھینکا گیا مگر صبر سے خدا کی مرضی کو اِیمان کی آنکھ سے دیکھتا رہا۔ اگر خدا کے یہ پیارے بندے آزمایشوں میں گِھرے رہے اور صبر سے خدا کی مرضی کا اِنتظار کرتے رہے تو ہمارا بھی فرض ہے کہ تکلیفوں، بیماریوں اور آزمایشوں میں ثابت قدم رہیں اور تنقیدی، منفی اور باغی رویہ اِختیار کر کے رُوح کو رنجیدہ نہ کریں۔

جیسا کہ ہم نے پہلے کہا کہ خدا ہماری تکلیفوں اور آزمایشوں میں بھی خود مُختار ہے اور اُس کا بیٹا مسیح ہمارے لئے ایک نمونہ ہے۔ وہ بھی دُکھ تکلیف اور ظلم و ستم سہہ کر خدا کے جلال کو پہنچا۔ ہمارا بھی فرض ہے کہ مسیح کی مانند ہر آزمایش کو صبر سے برداشت کریں۔ پاک کلام میں لکھا ہے، ’’…کیونکہ مسیح بھی تمہارے واسطے دُکھ اُٹھا کر تمہیں ایک نمونہ دے گیا ہے تاکہ اُس کے نقشِ قدم پر چلو۔‘‘ (۱-پطرس ۲:۲۱) بائبل مُقدس میں ایک اَور مقام پر لکھا ہے، ’’کیونکہ ہمارا ایسا سردار کاہن نہیں جو ہماری کمزوریوں میں ہمارا ہمدرد نہ ہو سکے بلکہ وہ سب باتوں میں ہماری طرح آزمایا گیا تو بھی بے گناہ رہا۔‘‘ (عبرانیوں ۴:۱۵) پاک صحائف میں مسیح یسوع کے دُکھوں، تکلیفوں اور آزمایشوں کے بارے یسعیاہ نبی کی سینکڑوں سال پہلے کی پیشین گوئی ملاحظہ فرمائیے، ’’وہ آدمیوں میں حقیر و مردُود، مردِ غمناک اور رنج کا آشنا تھا۔ لوگ اُس سے گویا رُوپوش تھے۔ اُس کی تحقیر کی گئی اور ہم نے اُس کی کچھ قدر نہ جانی۔ تو بھی اُس نے ہماری مُشقتیں اُٹھا لِیں اور ہمارے غموں کو برداشت کِیا۔ پر ہم نے اُسے خدا کا مارا کوٹا اور ستایا ہُوا سمجھا۔ حالانکہ وہ ہماری خطائوں کے سبب سے گھایل کِیا گیا اور ہماری بدکرداری کے باعث کچُلا گیا۔ ہماری ہی سلامتی کے لئے اُس پر سیاست ہوئی تاکہ اُس کے مار کھانے سے ہم شفا پائیں۔‘‘ (یسعیاہ ۵۳:۳-۵)

خود مُختار خدا کی حکمت و دانش دیکھئے کہ اُس نے جب محسوس کِیا کہ زمین پر بدکاری بڑھتی ہی جا رہی ہے اور بدکردار اِنسان اُس سے بالکل دُور ہو گیا ہے تو یہ دُوری مزید برداشت نہ کر سکا اور مسیح یسوع کی صورت میں خود دُنیا میں آیا تاکہ ہمیں گناہوں سے نجات دے کر ہمیشہ کی زندگی دے۔

آپ نے دیکھا کہ ہمارا خدا نہ صرف خود مُختار ہے بلکہ حکمت و دانش والا خدا بھی ہے، اور خدا کی یہی وہ خصوصیت ہے جس کا ہم اپنے اگلے پروگرام میں ذِکر کریں گے کہ خدا حکمت و دانش والا خدا ہے، سُننا مت بھولئیے گا۔