قدرتی آفات اِتنی ہلاکت خیز کیوں ہوتی ہیں؟ ہم دیکھتے ہیں کہ سارے کا سارا گائوں پانی اپنے ساتھ بہا لے جاتا ہے، ہم دیکھتے ہیں کہ شہروں کے شہر زلزلے کے ایک ہی جھٹکے سے نیست و نابود ہو جاتے ہیں، کہیں جنگل میں لگی آگ سے گھروں کے گھر تباہ و برباد ہو گئے ہیں۔ اِس طرح لوگ کیوں مرتے ہیں؟ کیوں اِتنے لوگ گھر سے بے گھر ہو جاتے ہیں؟ ایک وجہ یہ ہے کہ لوگ پیشگی اطلاع کی پرواہ نہیں کرتے اور نہ ہی وہ پہلے سے کسی قدرتی آفت کا مقابلہ کرنے کے لئے تیار ہوتے ہیں۔
مسیح یسوع نے حضرت نوح کے زمانے کے لوگوں کی لاپرواہی کے بارے ایک نہائت سوچ طلب پیغام دیا، ’’جس طرح طوفان سے پہلے کے دِنوں میں لوگ کھاتے پیتے اور بیاہ شادی کرتے تھے، اُس دِن تک کہ نوح کشتی میں داخل ہُوا، اور جب تک طوفان آ کر اُن سب کو بہا نہ لے گیا، اُن کو خبر نہ ہوئی۔‘‘ (متی ۲۴:۳۸-۳۹)
اَب سوال یہ ہے کہ لوگوں کو پہلے سے اُس آفت و مصیبت کی خبر کیوں نہیں ہوتی جو اُن کا سب کچھ تباہ و برباد کر دے گی؟ ایسا ہرگز نہیں کہ اِطلاع نہیں ہوتی، اِس سے پہلے کہ اُس نے زمین پر سیلاب کی تباہی و ہلاکت بھیجی، خدا نے لوگوں کو حضرت نوح کے ذریعہ ۱۲۰ سال تک خبردار کِیا مگر اُنہوں نے اِس کی کوئی پرواہ نہیں کی، اُن کو کچھ خبر نہ تھی، اور طوفان آیا اور اُن کا سب کچھ بہا لے گیا۔
لوگوں کو نہ صرف زبانی کلامی خبردار کِیا گیا بلکہ وہ ہلاکت و تباہی آنے کے آثار کو اپنی آنکھوں سے دیکھ بھی سکتے ہیں، وہ دیکھ رہے تھے کہ حضرت نوح اُن کے سامنے کشتی تیار کر رہا ہے جس میں اُس کا خاندان اور جانور وغیرہ طوفانی سیلاب سے محفوظ رہ سکیں گے، مگر پھر بھی اُنہوں نے کوئی توجہ نہ دی، وہ نیست و نابود ہو گئے اِس لئے کہ اُنہوں نے اُن ذرائع سے آنکھیں بند کر لِیں جن سے اُن کی جان بچ سکتی تھی، اُنہوں نے آنے والے طوفان سے بچنے کے لئے کوئی تیاری نہیں کی۔
جس طرح حضرت نوح کے زمانے میں لوگ آنے والی ہلاکت سے بے خبر تھے اُسی طرح آج بھی لوگ آنے والے طوفان و مصیبت سے بالکل لاپرواہ و بے خبر ہیں، یہی وجہ ہے کہ وہ اپنے بچائو کی تیاری نہیں کرتے، جس طرح حضرت نوح کے دِنوں میں لوگوں کو بار بار خبردار کِیا گیا اُسی طرح آج بھی ہمیں آنے والے طوفان و ہلاکت سے خبردار کِیا جاتا ہے مگر ہمیں اِس کی کوئی پرواہ نہیں ہوتی۔
آج ہم آنے والے طوفان و آفت سے کِس طرح خبردار ہوتے ہیں؟ ہم دیکھتے ہیں کہ ماضی میں کیا ہو چُکا ہے، جس سے ہمیں پتہ چلتا ہے کہ مُستقبل میں کیا ہو گا، مثال کے طور پر جہاں زلزلے آ چُکے ہیں وہاں پھر آئیں گے، جہاں ہر سال مون سون کی تباہ کن بارشوں کے باعث سیلاب آتے ہیں وہاں ایسا پھر ہو گا، اِسی طرح کچھ علاقے ایسے ہیں جہاں پہاڑوں کے تودے گرتے ہی رہتے ہیں، یا آگ لگتی ہی رہتی ہے، ہمیں حضرت نوح کے زمانے کے لوگوں کی طرح لاپرواہ و بے خبر نہیں ہونا چاہیے بلکہ اپنے بچائو کی پہلے سے تیاری کرنی چاہیے۔
اِس سب کی روشنی میں ہمیں کیسے تیاری کرنی چاہیے؟ ہم اپنے آپ کو آفت و طوفان سے کیسے محفوظ رکھیں؟ پہلی بات تو یہ کہ کسی جگہ مُنتقل ہونے سے پہلے، اُس جگہ کے بارے میں اچھی طرح سوچ بچار کریں، مسیح یسوع نے اِس بارے میں دو آدمیوں کی تمثیل بیان کی کہ ایک نے اپنا گھر ریت پر بنایا اور دوسرے نے چٹان پر، اور جب طوفان آیا تو ریت پر بنا گھر گِر کر تباہ و برباد ہو گیا مگر جو گھر چٹان پر بنا تھا اُس کو کوئی نقصان نہ پہنچا (متی ۷:۲۴-۲۷)۔
اگرچہ مسیح یسوع روحانی سچائی کے بارے میں تعلیم دے رہے تھے جس پر ہماری زندگیوں کا دارومدار ہے مگر یہی اُصول ہمارے جسمانی گھروں پر لاگو آتا ہے، ہمیں اپنے گھر ایسے علاقوں میں نہیں بنانا چاہیے جو تباہ و برباد ہو جانے والے ہیں، مثال کے طور پر یہ بے وقوفی ہو گی کہ کوئی اپنا گھر پہاڑ کی ڈھلوان پر بنائے کیونکہ پہاڑی تودہ گرنے سے تباہ و برباد ہو جائے گا۔
نہ صرف ہمیں گھر بنانے کی جگہ کے بارے میں سوچنا چاہیے بلکہ یہ بھی کہ گھر کِس طرح بنائیں، پولس رسول تشبیاً کلیسیا کو ایک گھر کہتا ہے (۱-کرنتھیوں ۳:۱۰-۱۵)۔ وہ کہتا ہے کہ کسی شخص نے کلیسیا بنانے میں کیسا اعلیٰ و معیاری کام کِیا ہے اُس کا پتہ اُس وقت چلے گا جب مصیبت و مسائل میں گھِرا ہو گا، اِسی طرح یہ سچائی جسمانی عمارت و گھر پر بھی صادِق آتی ہے، مثال کے طور پر اگر ہم ایسے علاقے میں رہتے ہیں جہاں آگ جلد بھڑک اُٹھتی ہے تو ہمیں ایسا ساز و سامان گھر بناتے ہوئے نہیں لگانا جس کو جلد آگ پکڑ لیتی ہے۔
نہ صرف ہمیں یہ توجہ دینی ہے کہ کہاں گھر بنائیں اور کیسے بنائیں بلکہ اِس پر بھی دھیان دیں کہ کیا بناتے ہیں، دوسرے لفظوں میں یہ کہ صرف اپنے خاندان کی ضرورت و خواہش کو ہی مدِنظر مت رکھیں بلکہ موسمی حالات، طوفان و آفت کو ذہن میں رکھیں جس کا ایک دِن ہمیں سامنا کرنا پڑے گا، مثال کے طور پر ایسے علاقے میں گھر نہ بنائیں جہاں اکثر سیلاب آتے رہتے ہیں، اور اگر ہمیں مجبوراً وہیں گھر بنانا پڑے تو ایسی جگہ کا اِنتخاب کریں جو اُونچائی پر ہو تاکہ سیلاب کا پانی نقصان نہ پہنچا سکے، اگر یہ ممکن نہ ہو کہ سارے کا سارا گھر پانی کی سطح سے بلند مقام پر ہو تو کم سے کم ایک حصہ ایسا ضرور بنائیں جس میں خاندان والے سیلاب کے پانی سے محفوظ رہ سکیں، اِسی طرح اگر ہمیں ایسے علاقے میں گھر بنانے کی مجبوری ہو جہاں تباہ کن آندھی طوفان کا بہت خطرہ ہو تو ہمیں تہہ خانے میں کوئی ایسا محفوظ کمرہ بنانا چاہیے جس میں گھر کے افراد پناہ لے سکیں۔
شائد آپ سوچ رہے ہوں کہ ــ’’ہاں، تصور تو اچھا ہے مگر میرے اِتنے وسائل نہیں ہیں!‘‘ دراصل دیکھنا یہ ہے ہمارے نزدیک کیا چیز زیادہ اہم و ضروری ہے، یا ہم کِس کو زیادہ اولیت دیتے ہیں، بہتر کیا ہے؟ ایک کمرہ جو زلزلے کی صورت میں گِرے نہیں یا تین کمرے جو گِر کر نیست و نابود ہو جائیں؟
طوفان و مصیبت کی تیاری کے لئے گھر بنانے پر صرف توجہ و دھیان دینا ہی کافی نہیں۔ سلیمان بادشاہ لکھتا ہے، ’’قیمتی خزانہ اور تیل دانائوں کے گھر میں ہیں لیکن احمق اُن کو اُڑا دیتا ہے۔‘‘ (امثال ۲۱:۲۰)
اِس حوالے کا مطلب یہ ہے کہ یہ عقلمندی اور دانائی ہے کہ کچھ بچا کر رکھ چھوڑیں، تاکہ جب مصیبت آن پڑے تو ممکن ہے کہ کچھ مدت کے لئے نوکری پر نہ جا سکیں، بازار اور دُکانیں کچھ عرصہ کے لئے بند ہوں، لیکن اگر گھر میں کھانا وغیرہ پکانے کے لئے سامان پڑا ہوا ہے تو رات کو کوئی بھوکا نہیں سوئے گا، اگر ہم نے کچھ پیسے بچا کر رکھ چھوڑے ہیں تو مصیبت و تکلیف کے دِنوں میں ہم کچھ نہ کچھ خرید سکتے ہیں اِس کے باوجود کہ کمائی کا کوئی ذریعہ نہیں ہے، اِسی طرح اگر ہم نے کچھ پیسے جمع کر رکھے ہیں تو مصیبت کے دِنوں میں محتاجوں اور ضرورتمندوں کی بھی مدد کر سکتے ہیں۔
اَور کئی عملی چیزیں ہیں جن کی مصیبت و تباہی آنے سے پہلے تیاری کر سکتے ہیں، مثال کے طور پر یہ دانائی و عقلمندی ہے کہ ہم اپنے ضروری کاغذات کی کاپیاں بنا کر کسی محفوظ جگہ رکھ دیں، اگر اصل کاپی برباد و گم بھی ہو جائے تو ہمارے پاس کاپیاں موجود ہیں جن کو ثبوت کے طور پر پیش کر کے اصلی بنوا سکتے ہیں، یہ بھی دھیان میں رکھنا ہے کہ اگر طوفان و سیلاب میں ہمارے خاندان کے افراد بچھڑ بھی جائیں تو ہمیں کیا کرنا ہو گا، کیا ہم سب نے مِل کر یہ فیصلہ کِیا ہے کہ اگرہم ایک دوسرے سے بچھڑ گئے اور گھر تک نہ پہنچ سکے تو کِس مقام پر اِکٹھے ہوں گے؟
اِس پروگرام میں ہم نے قدرتی آفات اور مصیبتوں کے بارے میں ذِکر کِیا کہ ہمیں تیاری کیسے کرنا ہے۔ مگر یاد رہے کہ خدا نے ہمیں ایک اور آفت و مصیبت سے بھی خبردار کر رکھا ہے جو کسی بھی وقت آ سکتی ہے، ایک دِن ہماری دُنیا بلکہ ساری کائنات تباہ و برباد ہو جائے گی، اگر ہم اُس دِن کے لئے تیار نہیں تو ہم اُس کے ساتھ ہی نیست و نابود ہو جائیں گے، پطرس رسول اِس بارے میں کہتا ہے، ’’یہ پہلے جان لو کہ اِخیر دِنوں میں ایسے ہنسی ٹھٹھا کرنے والے آئیں گے جو اپنی خواہشوں کے مُوافق چلیں گے، اور کہیں گے کہ اُس کے آنے کا وعدہ کہاں گیا؟ کیونکہ جب سے باپ دادا سوئے ہیں اُس وقت سے اَب تک سب کچھ ویسا ہی ہے جیسا خِلقت کے شروع سے تھا،‘‘ وہ تو جان بوجھ کر یہ بھول گئے کہ خدا کے کلام کے ذریعہ سے آسمان قدیم سے موجود ہیں اور زمین پانی میں سے بنی اور پانی میں قائم ہے، اِن ہی کے ذریعہ سے اُس زمانہ کی دُنیا ڈوب کر ہلاک ہوئی، مگر اِس وقت کے آسمان اور زمین اُسی کلام کے ذریعہ سے اِس لئے رکھے ہیں کہ جلائے جائیں، اور وہ بے دین آدمیوں کی عدالت اور ہلاکت کے دِن تک محفوظ رہیں گے… خداوند اپنے وعدے میں دیر نہیں کرتا جیسی دیر بعض لوگ سمجھتے ہیں بلکہ تمہارے بارے میں تحمل کرتا ہے، اِس لئے کہ کسی کی ہلاکت نہیں چاہتا بلکہ یہ چاہتا ہے کہ سب کی توبہ تک نوبت پہنچے، لیکن خداوند کا دِن چور کی طرح آ جائے گا، اُس دِن آسمان بڑے شور و غل کے ساتھ برباد ہو جائیں گے اور اجرامِ فلک حرارت کی شدت سے پگھل جائیں گے اور زمین اور اُس پر کے کام جل جائیں گے۔ پس اے عزیزو! چونکہ تم اِن باتوں کے مُنتظر ہو اِس لئے اُس کے سامنے اِطمینان کی حالت میں بے داغ اور بے عیب نکلنے کی کوشش کرو۔‘‘ (۲-پطرس ۳:۳-۱۴)
بائبل مقدس کے اِس بیان میں پطرس رسول وضاحت سے کہتا ہے کہ صرف ایک ہی راستہ ہے جس پر چل کر ہم زمین پر آنے والی ابدی تباہی و ہلاکت سے بچ سکتے ہیں، اور وہ ہے اپنے گناہوں سے توبہ… اور یہ اُسی وقت ممکن ہو سکتا ہے جب ہم مسیح یسوع کی پیروی کر کے خدا کے ساتھ صلح محبت کا ٹوٹا ہُوا رشتہ پھر سے جوڑیں گے۔