اُونچا مگر کِتنا؟ جب آپ رات کو آسمان کی طرف نظر اُٹھاتے ہیں تو آپ بے شمار چمکتی ہوئی بتیاں سی دیکھتے ہیں۔ لیکن درحقیقت آپ دیکھ کیا رہے ہیں؟ ہاں، آپ وہی آسمان یا شائد اُس کا کوئی دوسرا حصہ اپنی خالی آنکھوں سے دیکھ رہے ہیں جو خدا کے نیک بندے ابرہام نے اپنے زمانے میں دیکھا تھا۔
اگر وہ چاہتا تو شائد دو ہزار تک ستارے گِن سکتا اور اگر آپ کے پاس وقت ہو اور ذرا بجلی کی روشنی سے دُور جائیں تو ممکن ہے کہ آپ بھی اِتنے ہی ستارے گِن سکیں۔ لیکن علمِ فلکیات خالی آنکھ سے دیکھنے کے زمانے سے کہیں زیادہ آگے نکل چُکا ہے۔ آسمان کے بارے میں فلکیات کے ماہرین کا علم اور تجربہ جدید ترین دُوربِینوں اور اعلیٰ ترین فوٹو گرافی کی بدولت وسیع تر ہو گیا ہے۔ آسمان اِسقدر وسیع ہے کہ لازم ہے کہ اُسے کروڑوں سالِ نور ناپا جائے۔
روشنی ایک سیکنڈ میں ایک لاکھ چھیالیس ہزار میل کا فاصلہ طے کرتی ہے اور سالِ نور وہ فاصلہ ہے جو روشنی اِس رفتار سے ایک سال میں طے کرتی ہے۔ کیونکہ ایک سال میں تین کروڑ دَس لاکھ سے زیادہ سکینڈ ہوتے ہیں، اِس سے آپ اندازہ لگا سکتے ہیں کہ روشنی ایک سال میں کِس قدر دُور تک جاتی ہے۔ لیکن سائِنسدانوں کا خیال ہے کہ آسمان کی وُسعت چھ سَو کروڑ سالِ نور سے زیادہ ہے۔ کیا آسمان کی کوئی حد ہے یا نہیں؟ یہ مسئلہ ابھی تک زیرِ بحث ہے۔
آسمان کی اِس بے اِنتہا وسعت میں اِتنے ستارے ہیں کہ اگر آپ چھوٹے سے چھوٹا سکہ ہاتھ کی لمبائی کے برابر پکڑیں تو ایک کروڑ پچاس لاکھ ستارے نظر سے چھپ جائیں گے۔ اُن ستاروں کو آپ سکہ کی رکاوٹ کے بغیر بھی نہیں دیکھ سکتے کیونکہ دُوری اور وقت کی وسعت کے باعث اُن کی صرف چند نہایت ہلکی اور مدھم کرنیں آسمان کا طول فاصلہ طے کر کے ہم تک پہنچتی ہیں۔ لیکن پھر بھی وہ ستارے وہیں ہیں اور اگر ایک لمبے عرصے کے لئے کیمرہ کھلا چھوڑ کر آسمان کی تصویر کھینچی جائے تو وہ یقینا تصویر میں نمایاں ہوں گے۔ جِتنے ستارے ابرہام کسی صاف اور نکھری ہوئی رات میں خالی آنکھوں سے دیکھا کرتا تھا آج ہم جدید آلات کی بدولت اُس سے کہیں زیادہ بلکہ سَو کروڑ تک دیکھ سکتے ہیں۔
آسمان پر ستاروں کی کہکشاں یعنی Galaxy دِکھائی دیتی ہے۔ ایک اندازے کے مطابق ہماری اپنی کہکشاں میں جس کا نام Milky Way ہے تقریباً دَس ہزار کروڑ ستارے ہیں۔ اِس کے علاوہ اَور بھی کئی کہکشاں ہیں جو ممکن اپنے ہزاروں کروڑوں ستاروں کے ساتھ ایک کثیر تعداد میں مِلیں گے۔ آج ہم ایک خاص قِسم کی دو سَو اِنچ چوڑی دُوربین کی مدد سے تقریباً چار کروڑ کہکشاں دیکھ سکتے ہیں۔
فلکیات کے ماہرین نے یہ بھی اندازہ لگایا ہے کہ جب اِس سے بھی اعلیٰ ترین دُور بین ایجاد ہو گئی تو ہم ہزاروں کروڑوں کہکشاں دیکھنے کے قابل ہو جائیں گے۔ نہ جانے اِس تعداد میں ابھی اَور کتنا اِضافہ ہو گا۔
جب ہم اُس مادہ کی مِقدار کے بارے میں سوچتے ہیں جو اِن کہکشاں میں ہے تو دنگ رہ جاتے ہیں اِس لئے کہ وہ بے حساب ہے۔ کہکشاں کے علاوہ ستاروں کا ایک اَور مجموعہ بھی ہے جس کو انگریزی میں Constellation کہتے ہیں۔ یہ مجموعہ کہکشاں کے مقابلے میں نہایت وسیع ہے، لیکن Constellation Virgo کی صرف ایک ہی کہکشاں چار کروڑ سورج کے برابر ہے۔ کیونکہ ہمارے سورج میں ہماری زمین کے مقابلے میں ہزار کروڑ گُنا زیادہ مادہ پایا جاتا ہے اگر ہم Virgo میں پائی جانے والی کہکشاں کا وزن پونڈ یا کِلوگرام میں کرنا چاہیں تو یقینا ہمارے ذہن میں اِتنا بڑا عدد نہیں سما سکے گا۔ لیکن یہ کہکشاں اِسقدر دُور ہے کہ ہم اِسے کسی جدید ترین آلے کے بغیر محض خالی آنکھوں سے نہیں دیکھ سکتے۔
درحقیقت کہکشاں اِتنی زیادہ تعداد میں ہیں کہ ستاروں کی روشنی کا آدھے سے زیادہ حصہ اِنہی سے پیدا ہوتا ہے۔ گو ہم اُنہیں فرداً فرداً دیکھ نہیں سکتے، اِس کے باوجود اُن کی روشنی مدھم ہے مگر تعداد میں زیادہ ہونے کی وجہ سے، یہ کمی پوری ہو جاتی ہے۔ آسمان واقعی ہمارے تصورات اور سوچ سے کہیں زیادہ وسیع ہے۔ لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ یہ سب کچھ کیسے وجود میں آیا؟ ٹِمٹماتے ہوئے یہ اَن گنت ستارے اور لاتعداد مادہ، یہ کہاں سے آیا؟ کیا ہم سوال کا کوئی عذر پیش کر کے نظر انداز کر دیں جیسا کہ آج کل کے بہت سے سائنِنسدان کرتے ہیں؟ کیونکہ وہ قیاس آرائیاں تو پیش کرتے ہیں کہ کائنات نے کیسے اپنی موجودہ شکل اِختیار کی، لیکن اِس سوال کا جواب نہیں دیتے کہ یہ لاتعداد مادہ کہاں سے آیا؟ وہ تبدیلیِ کائنات کو سمجھنے کی کوشش تو کرتے ہیں مگر اُس کے آغاز کو نہیں۔
ہم کِس قدر دانش مندی کا مظاہرہ کرتے اگر ہم زبور نویس کے ساتھی مِل کر یہ کہتے کہ ’’آسمان خدا کا جلال ظاہر کرتا ہے اور فِضا اُس کی دستکاری دِکھاتی ہے۔‘‘ (زبور ۱۹:۱) ہاں! تخلیق کار ضرور ہے اور بے شک یہی اِس وسیع کائنات کے لئے ایک معقُول اور مُناسب جواب ہے۔ یہ ٹھوس حقیقت ہم سب پر واضح ہونا چاہیے کہ مادہ خود بخود پیدا نہیں ہوتا۔ ایک اینٹ سے دوسری اینٹ نہیں بن سکتی اور نہ ایک ذرے یعنی Atom سے دوسرا ذرہ پیدا کِیا جا سکتا ہے، اور نہ ہی ستارے دوسرے ستارے کو وجود میں لا سکتے ہیں۔ (یہ حقیقت ہے کہ ایک زندہ شہ ہی وہ قوت رکھتی ہے کہ اپنی شبیہ پر دوسری زندگی پیدا کر سکے، لیکن یہ حقیقی تخلیقی قوت سے قطعی مختلف ہے۔ وہ چیزیں یعنی Hydrocarbons جن سے گوشت اور ہڈیاں وغیرہ بنتی ہیں کائنات ہی سے لی جاتی ہیں اور مرنے کے بعد اُسے بھی واپس کر دی جاتی ہیں۔ لہذا اِس عمل سے صرف عناصر تبدیل ہوتے ہیں، لیکن تخلیق اِس تبدیلی کے مقابلے میں نہایت اعلیٰ ہے۔)
خدائے قادرِ مطلق نے یہ وسیع اور ناقابلِ تصور آسمان نہ صرف پورے اجزا سمیت بنایا بلکہ وہ ہر ایک چیز کی فہرست بھی جانتا ہے۔ بائبل مقدس میں زبور کی کتاب میں لکھا ہے، ’’وہ ستاروں کو شمار کرتا ہے اور اُن سب کے نام رکھتا ہے۔ ہمارا خداوند بزرگ اور قدرت میں عظیم ہے اُس کے فہم کی اِنتہا نہیں۔‘‘ (زبور ۱۴۷:۵-۴)
یسعیاہ نبی بھی ہمیں نصیحت کرتے ہوئے کہتا ہے، ’’اپنی آنکھیں اُوپر اُٹھائو اور دیکھو کہ اِن سب کا خالق کون ہے؟ وہی جو اِن کے لشکر کو شمار کر کے نکالتا ہے اور اُن سب کو نام بنام بُلاتا ہے۔ اُس کی قدرت کی عظمت اور اُس کے بازو کی توانائی کے سبب سے ایک بھی غیرحاضر نہیں رہتا۔‘‘(یسعیاہ ۴۰:۲۶)
واہ! خدا کے کام کتنے عجیب اور عظیم ہیں! واقعی وہ عظمت و جلال سے مُلبس ہے مگر وہ باپ کا محبت بھرا دِل بھی رکھتا ہے۔ وہ ایک پُرشفقت باپ کی طرح بے قرار رہتا کہ مُسرف بیٹا اپنی گمراہی اور برگشتگی سے پھر کر اُس کی طرف رُجوع کرے۔ وہ چاہتا ہے کہ ہم اُسے پہچانیں۔ اور یہی وجہ ہے کہ اُس نے کائنات میں اپنے خالق ہونے کے اِسقدر ثبوت مُہیا کِئے ہیں۔ اِسی لئے بائبل مقدس میں لکھا ہے، ’’کیونکہ اُس کی اَن دیکھی صفتیں یعنی اُس کی ازلی قدرت اور اَلوہیت دُنیا کی پیدائش کے وقت سے بنائی ہوئی چیزوں کے ذریعہ سے معلوم ہو کر صاف نظر آتی ہیں…‘‘ (رومیوں ۱:۲۰)
سورج، چاند، ستارے، آسمان و زمین غرض سب کچھ خدائے بزرگ و برتر نے تخلیق کِیا ہے۔ مَیں اور آپ، ہم سب اُسی کی مخلوق ہیں۔ وہ ہمارا خالق و مالک ہے۔ تو آئیے! کائنات کے ذرے ذرے سے جو وجودِ الٰہی کا زندہ ثبوت پیش کر رہے ہیں کچھ جاننے، پہچاننے اور سیکھنے کی کوشش کریں تاکہ اپنے خالق کی مکمل تابعداری کر کے اُس کا جلال ظاہر کر سکیں۔
اُونچا مگر کتنا؟
Posted in وجُودِ اِلٰہی